خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
لہ السؤال۔ (شامي ۳؍۲۸۶ زکریا) ولو دفعہا المعلم خلیفۃ إن کان بحیث یعمل لہ لم یعطہ صح وإلا (وتحتہ في الشامیۃ) قولہ: إلا لا، أي لأن المدفوع یکون بمنزلۃ العوض۔ (شامي ۲؍۳۵۶ کراچي) سئل عن معلم لہ خلیفۃ في المکتب یعلم الصبیان ویحفظہم ویکتب ألواحہم ولم یستأجرہ بشیٔ معلوم، وما اشترط شیئا والمعلم یعطیہ في الأحایین دراہم بنیۃ الزکاۃ ہل یجوز عن الزکاۃ؟ قال: نعم: إلا أن یکون بحیث لو لم یعطہ لم یعمل لہ ذلک في مکتبہ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ / کتاب الزکاۃ ۲؍۲۰۹-۲۱۰، قدیم، مسائل بہشتی زیور ۳۲۴) سوال(۳۱۵):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: الف: کیا زکوٰۃ وغیرہ صدقاتِ واجبہ کی رقوم کا طلبہ کومالک بنانا ہی ضروری ہے؟ یا مالک بنائے بغیر بھی طلبہ کی مصلحتوں اور ضروریات میں مہتمم صاحب کا اپنے طور پر خرچ کردینا مالک بنانے کے قائم مقام ہوجائے گا؟ ب:- طلبہ علم دین اور دینی امور میں مصروف عمل علماء دین کو ’’فی سبیل اللہ‘‘ کے تحت شامل مانتے ہوئے انہیں زکوٰۃ کا مصرف قرار دیا جاسکتا ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:الف:- زکوۃ کی ادائیگی کے لئے زکوٰۃ کی رقم یا رقم سے خریدی گئی اشیاء مصرف میں خرچ کرنا ضروری ہے؛ لہٰذا مہتمم ضرورت مند طلبہ کو براہ راست زکوٰۃ کی رقم تملیکاً دینے کا بھی مجاز ہے ، اور اس رقم سے ان کے کھانے، پینے کپڑے وغیرہ کا انتظام بھی کر سکتا ہے؛ تاکہ یہ اشیاء ضرورت مند طلبہ پر براہ راست صرف ہو جائیں، لیکن ایسی ضرورتیں جن میں تملیک نہیں پائی جاتی، مثلاً: بجلی، عمارت اور کتابیں وغیرہ تو ان مدات میں براہ راست زکوۃ و صدقات واجبہ کی رقومات صرف کرنا مہتمم کے لئے درست نہ ہوگا؛ بلکہ ان مدات میں صرف کرنے سے پہلے تملیک ضروری ہے۔