خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
ألواحہم ولم یستأجرہ بشئ معلوم وما اشترط شیئاً والمعلم یعطیہ في الأحایین دراہم بنیۃ الزکاۃ ہل یجوز عن الزکاۃ؟ قال: نعم! إلا أن یکون بحیث لو لم یعطہ لم یعمل لہ ذلک في مکتبہ ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۲؍۲۰۹-۲۱۰ زکریا) سوال(۳۱۴):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کیا طلبہ علم دین اور دینی کاموں (مثلاً تدریس، تصنیف اور تبلیغ) میں مصروف علماء دین زکوٰۃ کا مصرف ہیں؟ اگر ہیں تو کیا فقر کی شرط کے ساتھ یا غنی ہوکر بھی؟ نیز مصارفِ زکوٰۃ کی منصوصہ مدات میں سے کس مد میں شامل ہوکر یہ مصرف بنیںگے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:طلبۂ علوم دین اور دینی کاموں میں مصروف علماء وغیرہ اگر فقیر و نادار ہوں (اور دیگر کوئی مانع بھی نہ ہو) تو زکوٰۃ و صدقات واجبہ کی رقومات سے ان کی مدد کرنا بلاشبہ جائز ہے؛ لیکن یہ شرط ہے کہ یہ تعاون کسی عمل کے عوض میں نہ ہو یعنی تنخواہ وغیرہ کے طور پر نہ دیا جائے بلکہ بطور تبرع بلا عوض دیا جائے۔ اور اگر دینی مدارس کے طلبہ مالدار ہوں اور وہ مسلسل طلب علم میں مشغول ہوں تو اگر چہ بعض فقہی عبارتوں سے ایسے طلبہ پر براہ راست زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنے کی اجازت معلوم ہوتی ہے؛ لیکن علامہ شامیؒ کی نظر میں احوط اور اوجہ بات یہ ہے کہ یہ جواز فقر کے ساتھ مشروط ہو، اور صاحب درمختار علامہ حصکفی رحمہ اللہ کا ایسے طلباء کے لئے زکوٰۃ کے جواز کو {اَلْعَامِلِیْنَ عَلَیْہَا} پر قیاس کرنا محل نظر ہے؛ کیوںکہ عاملین بیت المال کے لئے کام کرتے ہیں، جب کہ طلبہ خود اپنی ذات کے لئے تحصیل علم میں مشغول ہیں دونوں کو ایک درجہ میں رکھنا سمجھ میں نہیں آتا۔ أما قولہ تعالی: {وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ} عبارۃ عن جمیع القرب فیدخل فیہ کل من سعی في طاعۃ اللّٰہ تعالی وسبیل الخیرات إذا کان محتاجاً۔ (بدائع الصنائع ۲؍۱۵۴ زکریا) قلت: وہو کذٰلک، والأوجہ تقییدہ بالفقیر ویکون طلب العلم مرخصاً لجواز سؤال من الزکوٰۃ وغیرہا، وإن کان قادراً علی الکسب إذ بدونہ لا یحل