خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
وصول کرنا جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو کیا ہر چھوٹے بڑے مدرسہ کے لئے؟ یا کچھ مخصوص صفات یا معیار کے حامل مدرسوں کے لئے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس مدارس میں مصارف زکوۃ بالفعل موجود ہیں، مثلاً: وہاں نادار اور غریب بچے مقیم ہوں اور ان کے قیام و طعام کا انتظام من جانب مدرسہ ہو، تو ایسے مدارس میں اخراجات کی تکمیل کے لئے زکوٰۃ و صدقات واجبہ کی رقومات وصول کرنا اور انہیں مصارف پر خرچ کرنا بلا شبہ جائز اور درست ہے؛ لیکن وہ مدارس جہاں مصرف زکوٰۃ بالفعل موجود نہ ہوں، مثلا: چھوٹے مکاتب جہاں مقامی بچے آتے ہیں اور پڑھ کر چلے جاتے ہیں اور ان کے قیام وطعام کا انتظام نہیں ہے، ایسے مدارس کے اخراجات صرف امدادی رقومات سے پورے کئے جانے چاہئے، ان کے لئے زکوٰۃ و صدقات واجبہ کی رقومات وصول کرنا جائز نہیں ہوگا، زکوٰۃ کا تعلق چونکہ ایک فرض کی ادائیگی سے ہے اس لئے اربابِ مدارس کو خوفِ آخرت پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی نازک ذمہ داری ادا کرنی چاہئے۔ (مستفاد: فتاویٰ محمودیہ ۹؍۵۹۴ ڈابھیل، محمودیہ ۱۴؍۲۹۷-۲۹۸، میرٹھ کتاب المسائل ۲؍۲۷۴) قال اللّٰہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنَ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِیْ الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ} [التوبۃ: ۶۰] مصرف الزکاۃ … ہو فقیر … وفي سبیل اللّٰہ … قیل: طلبۃ العلم … یصرف المزکي إلی کلہم أو إلی بعضہم … ویشترط أن یکون الصرف تملیکاً لا إباحۃً… فلا یکفي فیہا الإطعام إلا بطریق التملیک۔ (شامي / باب المصرف ۲؍۳۴۰-۳۴۴ کراچی) ولا یحل أن یسأل شیئا من القوت من لہ قوت یومہ بالفعل أو بالقوۃ کالصحیح المکتسب ولو سأل الکسوۃ لا شتغالہ عن الکسب بالجہاد أو طلب العلم جاز أو محتاجاً۔ (شامي ۲؍۲۵۷ کراچی) سئل عن معلم لہ خلیفۃ في المکتب یعلم الصبیان ویحفظہم ویکتب