خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
نائب مہتمم مدرسہ شاہی مرادآباد کی زیر سرپرستی قائم ہوا تھا، ادارہ کے جملہ مصارف تو کل علی اﷲ پورے ہوتے ہیں، طریقہ کار کچھ اس طرح ہے: جو رقومات زکوٰۃ کی مد میں آتی ہیں، منتظمین یہ کرتے ہیں کہ جتنے بھی طلبہ زیر تعلیم ہیں، ان سب کی فیس مقرر کر رکھی ہے خواہ وہ غریب ہو یا مال دار؛ البتہ جو طلبہ غریب نادار ہیں اور فیس ادا کرنے پر قادر نہیں ہیں، تو ان کے والدین کو بلاکر مذکورہ رقم سے ان کو دے دیا جاتا ہے، جس سے وہ اپنے بچوں کی فیس، کتب وغیرہ میں خرچ کرتے ہیں، منتظمین اس طرح زکوٰۃ کی تملیک کرتے ہیں، تو کیا اس طرح کرنا درست ہے؟ واضح رہے کہ زکوٰۃ کی رقم جو طلبہ کے والدین کو دی جاتی ہے، اس میں یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ طالب علم بیرونی ہو؛ بلکہ ابھی دار الاقامہ میں رہنے والے طلبہ کا نظم نہیں ہے، مگر جو مقیم طلبہ ہیں وہ اطراف میں تین چار کلو میٹر سے آتے ہیں اور پھر اپنے گھر واپس چلے جاتے ہیں، ان میں جو غریب نادار بچے ہیں، ان کے والدین کو بطور تملیک کچھ رقم دے دی جاتی ہے؛ تاکہ یہ نادار بچے بھی تعلیم سے محروم نہ رہ سکیں، نصاب تعلیم میں قرآنِ پاک، دینیات، اردو، پرائمری تک کی تعلیم ہے۔ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: حسبِ تحریر سوال جب کہ غریب نادار والدین کو زکوٰۃ کی رقم کا مالک بناکر ان ہی کے ذریعہ سے وہ رقم غریب بچوں پر خرچ کرائی جاتی ہے، تو تملیک کا یہ طریقہ شرعاً درست ہے، اور اس طریقہ سے مالکین کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ ہو فقیر: وہو من لہ أدنی شيء الخ، یعرف المزکی إلی کلہم، أو إلی بعضہم، ولو واحدا من أي صنف کان۔ (درمختار مع الشامي ۳؍۲۶۲-۲۶۳ بیروت) ویشترط أن یکون الصرف تملیکا… والحیلۃ أن یتصدق علی الفقیر ثم یأمرہ بفعل ہذہ الأشیاء۔ (شامي ۳؍۲۹۳-۲۹۱ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۵؍۷؍۱۴۲۹ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہ