خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
تعمیرات، نشر واشاعت وغیرہ، جن پر زکوٰۃ وصدقات کی رقوم خرچ نہیں کی جاسکتی؛ لہٰذا کیا صورت اختیار کی جائے کہ مدرسہ کے سبھی امور اور ضرورتیں بروقت پوری ہوتی رہیں۔ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر زکوٰۃ کا روپیہ لگائے بغیر مدارس کا چلانا دشوار ہو جن میں فقہ وحدیث کی تعلیم ہوتی ہو اور ان میں زکوٰۃ کے مصرف طلبہ موجود ہوں، تو مدارس کی دیگر ضروریات کی تکمیل کے لئے شرعی حیلۂ تملیک اختیار کرنے کی گنجائش ہے، یعنی زکوٰۃ وصدقاتِ واجبہ کی رقومات کا واقعۃً کسی مستحق کو مالک بنادیا جائے، پھر وہ اپنی جانب سے برضا ورغبت مدارس کی ضروریات میں وہ رقم خرچ کرے۔ عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت کان في بریرۃ ثلاث سنن … ودخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم والبرمۃ تفور بلحم، فقرب إلیہ خبر وأدم من أدم البیت، فقال: ألم أر برمۃ فیہا لحم؟ قالوا: بلیٰ! ولکن ذٰلک لحم تصدق بہ علی بریرۃ، وأنت لا تأکل الصدقۃ، قال: ہو علیہا صدقۃ ولنا ہدیۃ۔ (صحیح البخاري، الطلاق / باب لا یکون بیع الأمۃ طلاقاً رقم: ۵۲۷۹، فتح الباري ۱۲؍۵۰۵ دار الکتب العلمیۃ بیروت) وقال الملا علي القاري: قال الطیبي: إذا تصدق علی المحتاج بشيء ملکہ، فلہ أن یہدي بہ إلی غیرہ الخ، وہو معنی قول ابن الملک: فیحل التصدق علی من حرم علیہ بطریق الہدیۃ۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ۴؍۲۹۲ دار الکتب العلمیۃ بیروت) لو أراد صرفہا إلی بناء المسجد أو القنطرۃ لا یجوز، فإن أراد الحیلۃ فالحیلۃ أن یتصدق بہ المتولي علی الفقراء، ثم الفقراء یدفعونہ إلی المتولي، ثم المتولي یصرف إلی ذٰلک کذا في الذخیرۃ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۲؍۴۷۳) ولا تدفع الزکاۃ لبناء مسجد؛ لأن التملیک شرط فیہا ولم یوجد، وکذا بناء القناطر وإصلاح الطرقات وکری الأنہار والحج والجہاد، وکل ما لا