خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
میں کہ: زکوٰۃ کی رقم سے کیا کوئی رفاہی کام کیا جاسکتا ہے؟ جیسے کتابیں بٹوادی جائیں؟ مسنون دعائیں تقسیم کرادی جائیں؟ یا تسبیح وغیرہ مسجد میں رکھوادیں؟ تو یہ صحیح ہے یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: زکوٰۃ کی صحت کے لئے فقیر کو مالک بنانا لازم ہے، اور رفاہی مصارف میں صرف کرنے سے چوںکہ تملیک کی شرط نہیں پائی جاتی، اس لئے زکوٰۃ کی رقم سے رفاہی ضرورتوں کو پورا نہیں کیا جاسکتا؛ البتہ اگر زکوٰۃ کی رقم سے کتابیں خرید کر غریبوں کو بانٹی جائیں یا زکوٰۃ کی رقم سے خریدی گئی تسبیحیں فقراء کو مالکانہ طور پر دے دی جائیں، تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ أخرج عبد الرزاق عن الشعبي أن شریحاً ومسروقاً لا یجیزان الصدقۃ حتی یقبض۔ (المصنف لعبد الرزاق ۹؍۱۲۲ رقم: ۱۶۵۹۱) قال القدوري في کتابہ: ولا یجوز الزکاۃ إلا إذا قبضہا الفقیر، أو قبضہا من یجوز قبضہا لہ لولایتہ علیہ کالأب والوصي یقبضان للمجنون والصبي۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۱۲ زکریا) وفي تجنیس خواہر زادہ: ولا یجوز إلا بقبض الفقراء، أو بقبض من یکون قبضہ قبضا لہم۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۰۶ زکریا) واعلم أن التملیک شرط، قال تعالیٰ: {وَاٰتُوْا الزَّکَاۃَ} والإیتاء: الإعطاء، والإعطاء: التملیک، فلا بد فیہا من قبض الفقیر أو نائبہ … لأن التملیک لا یتم بدون القبض۔ (الاختیار لتعلیل المختار / باب مصارف الزکاۃ ۱؍۱۲۱ المکتبۃ الشاملۃ) ویشترط أن یکون الصرف تملیکاً لا إباحۃً لایصرف إلی بناء نحو مسجد کبناء القناطر والسقایات، وإصلاح الطرقات، وکل ما لا تملیک فیہ۔ (شامي ۳؍۲۹۱ زکریا) الزکاۃ لا تتأدی إلا بتملیک عین متقومۃ، حتی لو أسکن الفقیر دارہ سنۃ بنیۃ الزکاۃ لا یجزیہ؛ لأن المنفعۃ لیست بعین متقومۃ۔ (البحر الرائق / کتاب الزکاۃ