خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
وہ میقات سے حج کا احرام باندھے اور یہ بات حج افراد اور حج قران میں تو پائی جاتی ہے؛ لیکن حج تمتع میں نہیں پائی جاتی، اسی لئے بہت سی کتابوں میں یہی لکھا ہے کہ حج بدل میں افراد یا قران ہی ہونا چاہئے، حج تمتع سے حج بدل معتبر نہ ہوگا۔ قالوا: قید بالقران؛ لان في التمتع یصیر مخالفاً بالإجماع وإن نوی العمرۃ عن الآمر؛ لأنہ أمر بالإنفاق في سفر الحج، وقد اتفق في سفر العمرۃ؛ ولأنہ أمر بحجۃ میقاتیۃ وقد أتی بحجۃ مکیۃ۔ (البحر العمیق ۴؍۳۱۲۳، مناسک ملا علی القاري ۴۵۹) نیز زبدۃ المناسک از: حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، غنیۃ الناسک، از: حضرت مولانا حسن شاہ مہاجر مکیؒ، اور معلم الحجاج، از: حضرت مولانا قاری سعید احمد صاحب اجراڑویؒ ،وغیرہ میں بھی یہی رائے اپنائی گئی ہے۔ لیکن موجودہ دور میں بالخصوص احرام میں طوالت اور جنایات احرام کے ارتکاب کے خطرہ کی وجہ سے محقق مفتیانِ کرام نے آمر کی اجازت سے حج بدل میں تمتع کے جواز کی رائے اپنائی ہے۔ چناں چہ لباب المناسک (للشیخ رحمت اللہ سندھی) اور ارشاد الساری حاشیۃ مناسک ملا علی قاری (از: علامہ محمد سعید عبدالغنی مکی) اور زبدۃ المناسک مع عمدۃ المناسک (مؤلفہ حضرت مولانا شیر محمد سندھیؒ مہاجر مدنی) ۴۵۶، جواہر الفقہ (مؤلفہ: حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ) ۵۰۸-۵۱۶، احسن الفتاویٰ (مؤلفہ: مفتی رشید احمد لدھیانویؒ) ۴؍۵۲۳ اورانوار مناسک (مؤلفہ: مفتی شبیر احمد صاحب قاسمی) ۵۵۰-۵۵۱ میں بھی دلائل کے ساتھ یہی رائے مذکور ہے۔ نیز ادارۃ المباحث الفقہیۃ جمعیۃ علماء ہند کے چھٹے فقہی اجتماع منعقدہ ۱۴۱۷ھ میں منظور کردہ تجویز کے الفاظ حسب ذیل ہیں: ’’حج بدل کا اصل حکم تو یہی ہے کہ مامور حج افراد کرے؛ لیکن اگر آمر یا وصی تمتع کی اجازت دے تو تمتع بھی درست ہے؛ البتہ دم تمتع مامور اپنے مال سے ادا کرے الا یہ کہ آمر دم تمتع ادا کرنے کی بھی اجازت دے دے، خواہ یہ اجازت صراحۃً ہو یا دلالۃً‘‘۔ تاہم بہتر یہی ہے کہ حج بدل میں حج افراد کیا جائے؛ تاکہ کوئی خلجان نہ رہے، اور اس کی آسان