خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
میں کہ: چھ بھائیوں کی مشترکہ تمباکو (کھیتی) کی دکان ہے پانچ بھائیوں نے یکے بعد دیگرے حج کرلیا، ایک بھائی کو نماز روزہ سے کوئی واسطہ نہیں، اخلاق اچھے ہیں مدرسہ مسجد اور مستحق امداد لوگوں کی اعانت بھی کرتے ہیں، حلال وحرام میں بہت محتاط ہیں وہ صاحب مال ہونے کے باوجود حج نہیں کرنا چاہتے،اب وہ اگر حج کا خرچ دوسرے کو دے کر حج کرانا چاہیں، اور غیر مستطیع شخص ان کی طرف سے حج کرے تو یہ کیسا ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس شخص پر حج فرض ہوچکا ہو اور کسی طرح کا عذر اس کو لاحق نہ ہو تو اس کے لئے دوسرے شخص سے حج بدل کرانا جائز نہیں ہے، نیز ایسے شخص کو خود حج نہ کرنے پر بہت سخت وعید آئی ہے، آپ علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ ’’جو شخص سواری اور توشۂ سفر پر قادر ہو اور بآسانی حج کرکے واپس آسکتا ہو اس کے باوجود وہ حج نہ کرے، تو اس کے بارے میں سخت خطرہ ہے کہ وہ یہودی ہوکر مرے یانصرانی ہوکر‘‘ لہٰذا ان صاحب کو کوتاہی نہیں کرنی چاہئے اور جلد از جلد فریضۂ حج ادا کرلینا چاہئے۔ (مستفاد انوار مناسک؍ ۵۴۱) عن علی رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من ملک زاداً أو راحلۃ تبلغہ إلی بیت اللّٰہ ولم یحج فلا علیہ أن یموت یہودیاً أو نصرانیاً، وذلک أن اللّٰہ یقول في کتابہ: {وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً}۔ (سنن الترمذي ۱؍۱۶۷ رقم: ۸۱۲، شعب الإیمان للبیہقي ۳؍۴۳۰ رقم: ۳۹۷۸) تقبل النیابۃ عند العجز فقط، لکن بشرط دوام العجز علی الموت۔ (شامي ۴؍۱۴ زکریا) والنیابۃ تجري في النوع الثالث عند العجز، ولا تجري عند القدرۃ، والشرط العجز الدائم إلی وقت الموت۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۶۴۶ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۸؍۱۱؍۱۴۲۸ھ الجواب صحیح:شبیر احمد عفااﷲ عنہ