خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
(۱) آمر کا اسے حج کرنے کا صراحۃً حکم دینا؛ البتہ وارث کا اپنے مورث کی طرف سے بلا امر حج کرنا بھی معتبر ہے۔ (۲) احرام باندھتے وقت مامور کا آمر کی طرف سے حج کی نیت کرنا۔ (۳) مامور کا آمرکی طرف سے خود حج کرنا، دوسرے سے نہ کرانا۔ (۴) اگر میت نے حج بدل کی وصیت میں کسی خاص شخص کو متعین کیا ہے تو اسی متعین شخص کا حج کرنا ضروری ہے، الا یہ کہ کوئی معقول عذر ہو۔ (۵) اکثر سفر حج میں آمر کا مال خرچ کرنا۔ (۶) اکثر سفر سوار ہوکر کرنا؛ لہٰذا اگر پیدل سفر کیا تو آمر کی طرف سے حج درست نہ ہوگا۔ (۷) آمر کے وطن سے سفر شروع کرنا۔ (۸) حج کو فاسد نہ کرنا؛کیوںکہ اگر حج بدل کو فاسد کردیا تو یہ حج آمر کی طرف سے نہ ہوکر مامور کی طرف سے ہوجائے گا۔ (۹) آمر کے حکم کی مخالفت نہ کرنا، مثلاً اگراس نے حج افراد کا حکم دیا ہے اور مامور نے اپنی مرضی سے حج قران یا حج تمتع کرلیا تو یہ حج آمر کی طرف سے نہیں ہوگا؛ البتہ اگر خود آمر یا وصی حج تمتع یا قران کی اجازت دے تو اس کی گنجائش ہے۔ (۱۰) ایک سفرمیںایک ہی حج کا احرام باندھنا؛ لہٰذا اگر مامور نے آمر کے احرام کے بعد اپنے حج کا بھی احرام باندھ لیا تو آمر کا حج ادا نہ ہوگا۔ (۱۱) ایک احرام میں دو شخصوں کی نیت نہ کرنا؛ لہٰذا اگر مثلاً دو آدمیوں نے مامور کو حج بدل کا حکم دیا اور اس نے اس سفر میں دونوں آمروں کی طرف سے نیت کرلی تو ان آمروں میں سے کسی کی طرف سے بھی حج ادا نہ ہوگا۔ (۱۲) حج کا فوت نہ ہونا۔ (مستفاد: فتاویٰ شامی ۴؍۱۷-۱۸، غنیۃ الناسک ۳۲۰-۳۳۶، مناسک ملا علی قاری ۳۵-۴۵۲، جواہر الفقہ ۱؍۵۰۰-۵۰۶)