خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
(۳) تیسری شکل یہ ہے کہ مدرسہ صولتیہ میں قربانی کے لئے رقم جمع کرادیں اور ان کے دئے ہوئے وقت کی پابندی کریں، الغرض موجودہ حالات میں مذکورہ بالا صورتوں کو اپنا کر جب ترتیب برقرار رکھی جاسکتی ہے، تو مطلقاً ترتیب کے حکم کو ساقط کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، اس لئے حنفی حجاج کو اپنی ترتیب باقی رکھنے کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہئے، اور بینک کا کوپن خرید کر خود اپنی مرضی سے ترتیب کو خراب نہیں کرنا چاہئے؛ تاہم اگر کوئی شخص اپنی کمزوری یا کسی اور معقول وجہ سے کوشش اور فکرکے باوجود ترتیب کو برقرار نہ رکھ سکے تو اس کے لئے حضرات صاحبین رحمہما اﷲ کے قول پر عمل کرتے ہوئے ترک ترتیب پر الگ سے کسی دم کے وجوب کا حکم نہیں دیا جائے گا، چنانچہ ادارۃ المباحث الفقہیہ جمعیۃ علماء ہند کے چھٹے فقہی اجتماع منعقدہ ۱۴۱۷ھ (بمقام دیوبند) میں ہندوپاک کے معتبر علماء ومفتیانِ کرام نے یہ تجویز منظور فرمائی ہے۔ قلت: وقد یدل علی وجوب الترتیب بین الرمي والذبح والحلق والطواف ما رواہ أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أتی منی، فأتی الجمرۃ فرماہا، ثم أتی منزلہ منزلہ بمنی و نحر ثم قال للخلاف: خذوا، أشار إلی جانبہ الأیمن ثم الأیسر۔ (صحیح مسلم / باب بیان أن السنۃ یوم النحر أن یرمي ثم ینحر ثم یحلق رقم: ۱۳۰۵) وفي حدیث جابر رضي اللّٰہ عنہ: أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم انصرف إلی المنحر، فنحر، ثم رکب فأفاض إلی البیت۔ (صحیح مسلم / باب حجۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم رقم: ۱۲۱۸) عن إبراہیم قال: من حلق قبل أن یذبح أہرق دما فقرأ: {وَلَا تَحْلِقُوْا رُؤُوْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہٗ} (المصنف لابن أبی شیبۃ کذا في الجوہر النقي ۱؍۳۴۷، ومسند أحمد ۱؍۲۳۴، وسنن النسائي ۲؍۵۲ والبیہقي في السنن الکبریٰ ۵؍۱۳۳ إعلاء السنن ۱۰؍۱۸۳ دار الکتب العلمیۃ بیروت)