خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر آپ نے یہ سمجھ کر قربانی کی ہے کہ جیسے اور حجاج قربانی کررہے ہیں میں بھی اسی طرح کررہا ہوں، تو یہ قربانی حج تمتع کی طرف سے مانی جاسکتی ہے؛ لیکن اگر حج کی قربانی کا کوئی خیال ہی نہ تھا؛ بلکہ صرف مالی قربانی ہی کا قصد تھا، جیسا کہ سوال کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے، تو صورت مسئولہ میں آپ پر اور آپ کی اہلیہ پر دم تمتع کے ساتھ دو دم جنایت بھی لازم ہیں، اور یہ سب دم حدودحرم میں ہی ذبح کرنے ضروری ہیں، گویا ہر ایک پر تین دم لازم ہوںگے: (۱) دم تمتع (۲) دم تمتع کو ۱۲؍ ذی الحجہ سے مؤخر کرنے کا دم جنایت (۳) قربانی سے پہلے حلق یا قصر کی جنایت کا دم اور چوں کہ احرام سے نکلنے کی نیت سے حلق کرایا ہے؛ اس لئے مزید کسی جنایت پر دم نہ ہوگا۔ (مستفاد: انوار مناسک؍ ۵۰۷) قال تعالیٰ: {وَلاَ تَحْلِقُوْا رُؤُوْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہُ} [البقرۃ: ۱۹۶] عن إبراہیم عن علقمۃ: {وَلَا تَحْلِقُوْا رُؤُوْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہُ} فإن عجل فحلق قبل أن یبلغ الہدي محلہ فعلیہ فدیۃ من صیام أو صدقۃ أو نسک، قال إبراہیم: فذکرتہ لسعید بن جبیر: فقال: ہذا قول ابن عباس وعقد بیدہ ثلاثین و روی عن ابراہیم النخعي مثل ذٰلک۔ (تفسیر ابن أبي حاتم ۱؍۳۳۷ الشاملۃ) أما قولہ تعالی: ولا تحلقوا الخ ففیہ مسائل: المسألۃ الأولیٰ: في الاٰیۃ حذف؛ لأن الرجل لا یتحلل ببلوغ الہدي محلہ بل لا یحصل التحلل إلا بالنحر فتقدیر الآیۃ: حتی یبلغ الہدي محلہ وینحر فإذا نحر فاحلقوا۔ (تفسیر الرازي ۵؍۳۰۵ الشاملۃ) عن مولی لابن عباس قال: تمتعت أن أنحر، وأخرت ہدیي حتی مضت الأیام، فسألت ابن عباس؟ فقال: اہد ہدیا لہدیک، وہدیا لما أخرت۔ (المصنف لابن أبی شیبۃ ۸؍۴-۷۰۳ رقم: ۱۵۷۰۹) أخرج البخاري حدیثا طویلا عن ابن عباس طرفہ … فإذا فرغنا من