خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
ویران علاقے کا فاصلہ رہا ہے، اور یہ صورتِ حال چودہ سو سال تک رہی، اور فقہاء نے دونوں مقاموں کو الگ الگ شمار کیا۔ اب قابل تحقیق امر یہ ہے کہ فقہاء کا یہ حکم فاصلہ کی علت کے ساتھ معلول ہے یا اس کی وجہ منیٰ کا ’’مشعر‘‘ ہونا ہے؟ اور یہ حکم ایسا توقیفی ہے جس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی، تو اس بارے میں اگر کوئی نص ہوتو اسے پیش کیا جائے۔ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہاں دو باتیں بالکل الگ الگ ہیں: الف:- اول یہ کہ منی ایک مشعر ہے جس کی حدود میں خاص مناسک ادا کئے جاتے ہیں وہ حدود تو قیفی ہیں، جن کو بدلنے کا کسی کو اختیار نہیں، یہ ایک متفق علیہ مسئلہ ہے۔ ب:- دوسرا امر قابل غور یہ ہے کہ منی کے مشعر رہتے ہوئے اور اس کی حدود میں کسی طرح کی تبدیلی نہ کرتے ہوئے کیا بعض ضمنی مسائل میں وہ حکما مکہ معظمہ کے تابع ہو سکتا ہے یا نہیں؟ تو فقہی جزئیات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ منی اپنی جگہ پر مشعر رہتے ہوئے اتصال آبادی کی بنیاد پر شہر مکہ کے تابع ہو سکتا ہے، اور اس تا بعیت کا اثر منیٰ کے مخصوص اعمال پر نہیں پڑتا، یعنی منی کے شہر مکہ کے تابع ہونے سے یہ لازم نہیں آئے گا کہ مبیت منی کی سنیت ختم ہوجائے یا مکہ تک عام ہو جائے وغیرہ؛ بلکہ اس کا اثر صرف قصر و اتمام،مالی قربانی یا اقامت جمعہ پر ہی پڑ سکتا ہے۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ بہت سے فقہاء نے زمانہ سابق میں منی کو فناء مکہ میں داخل ماننے کی بات کہی تھی؛ لیکن اس بات کو دیگر فقہاء نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ منی اور مکہ میں کافی فاصلہ ہے، تو معلوم یہ ہوا کہ فقہاء کی نظر میں منیٰ کے فناء مکہ میں شامل نہ ہونے کی علت فاصلہ تھا، اگر ان کے نزدیک اس کا نفس مشعر ہونا فناء بننے سے مانع ہوتا، تو وہ جواب میں فاصلہ کی بات نہ کہتے؛ بلکہ واضح جواب یہ ہوتا کہ منی چوں کہ ایک مشعر ہے، اس لئے وہ مکہ کے تابع کبھی نہیں ہو سکتا، حالاں کہ اس طرح کی بات فقہاء سے کہیں منقول نہیں ہے۔