خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
تھا، عورتوں کا دل کمزور ہونے کی وجہ سے اور موت کا خطرہ پیش نظر ہونے کی وجہ سے عورتیں کنکریاں مارنے کی ہمت نہیں کرسکیں، ناچار ہم دونوں مردوں نے ان کی طرف سے وکالت کرتے ہوئے کنکریاں ماریں، کیا یہ عمل درست تھا، اگر نہیں تو کیا کیا جائے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:جمرات پر جو حادثات پیش آتے ہیں، سعودی حکومت بہت مختصر وقت میں ان پر قابو پالیتی ہے، اور متاثرین کو ہنگامی طور پر وہاں سے جلد از جلد منتقل کردیا جاتا ہے، اور تھوڑی ہی دیر میں ایسی صورت سامنے آتی ہے گویا کچھ یہاں ہوا ہی نہ ہو، اور رمی کا وقت کافی وسیع بھی ہوتا ہے، اور کمزوروں کے لئے رات میں رمی کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، اس لئے مسئولہ صورت میں ایک وقتی دہشت کی وجہ سے جن عورتوں کی طرف سے رمی میں نیابت کی گئی ہے، وہ صحیح نہیں ہوئی، اور اس ترک رمی پر دم جنایت واجب ہے، جو حدود حرم میں کبھی بھی ذبح کیا جاسکتا ہے۔ عن إبراہیم قال: یُحملُ المریض إلی الجمار، فإن استطاع أن یومي فلیوم، وإن لم یستطیع فلیوضع الحصی في حفِّہ، ثم یُرمی بہا من کَفِّہ۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۶؍۶۳۶ رقم: ۱۵۳۹۴) عن إبراہیم قال: یُشْہَدُ بالمریض المناسکُ کلُّہا، ویطاف بہ علی مَحمِل، فإذا رمی الجمار وُضع في کفِّہ، ثم رُميَ بہ من کفِّہ۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۶؍۶۳۶ رقم: ۱۵۳۹۵) والرجل والمرأۃ في الرمي، سواء إلا أن رمیہا في اللیل أفضل فلا تجوز النیابۃ عن المرأۃ بغیر عذر۔ (غنیۃ الناسک / باب رمي الجمار ۱۸۸ إدارۃ القرآن کراچی) فـإن کان مریض لہ قدرۃ عــلی حضور المرمي محمولاً ویستطیع رمیا کذلک من غیر أن یلحقہ ألم شدید، ولا یخاف زیادۃ المرض ولا بطوء