خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
ہے وہ نہایت ضعیف اور غیر مفتی بہ ہے۔ اور تجربہ سے یہ بات ثابت ہے کہ بارہویں تاریخ کو زوال سے لیکر مغرب تک بآسانی اکثر لوگ رمی کے عمل سے فارغ ہوجاتے ہیں، مثلا اگر سات بجے غروب ہورہا ہے تو پانچ بجے تک زیادہ تر بھیڑ چھٹ جاتی ہے، اور لوگ اس کے بعد نسبۃً آسانی کے ساتھ رمی کا رکن ادا کرسکتے ہیں، یہ تقریباً ہر سال کا تجربہ ہے، اور عام طور پر اس دن حادثات بھی پیش نہیں آتے؛ اس لئے بلاوجہ مفتی بہ قول کو چھوڑ کر ضعیف پر فتویٰ دینے کی قطعا اجازت نہیں دی جائیگی، البتہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ بارہویں تاریخ کو مغرب کے بعد بھی اگر رمی کی جائے تو وہ کراہت کے ساتھ ادا ہوجاتی ہے اور اگلے دن کا قیام بھی ضروری نہیں ہوتا، اور خواتین ومعذور لوگوں کے لئے مغرب کے بعد رمی کرنے میں کوئی کراہت بھی نہیں ہے، یہ گنجائش پہلے ہی سے کتب فقہ میں موجود ہے، اس میں مزید کسی تخفیف کی ضرورت نہیں ہے۔ عن جابر رضي اللّٰہ عنہ قال: رمی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الجمرۃ یوم النحر ضحیً، وأما بعد فإذا زالت الشمس۔ (صحیح مسلم / باب بیان وقت استحباب الرمي ۱؍۴۲۰ رقم: ۱۲۹۹، سنن أبي داؤد ۱؍۲۷۱ رقم: ۱۹۷۱، سنن الترمذي ۱؍۱۷۹ رقم: ۸۹۵) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یرمي الجمار إذا زالت الشمس۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۸؍۴۸۶ رقم: ۱۴۷۹۰) وأما وقت الرمي من الیوم الأول والثاني من أیام التشریق، وہو الیوم الثاني والثالث من أیام الرمي، فبعد الزوال، حتی لایجوز الرمی فیہما قبل الزوال في الروایۃ المشہورۃ عن أبي حنیفۃ، وروی عن أبي حنیفۃ: أن الأفضل أن یرمی في الیوم الثاني والثالث بعد الزوال، فإن رمی قبلہ جاز، وجہ ہذہ الروایۃ: أن قبل الزوال وقت الرمي في یوم النحر فکذا في الیوم الثاني والثالث؛ لأن الکل أیام النحر، وجہ الروایۃ المشہورۃ ما روي عن جابر رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رمی الجمرۃ یوم النحر ضحی ورمی في بقیۃ الأیام بعد