خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
کہ زوال کے بعد اور غروب آفتاب سے قبل رمی سے فارغ ہوکر مکہ مکرمہ روانہ ہوجائیں، ظاہر ہے کہ اس مختصر وقت میں تمام لوگ کیسے فارغ ہوسکتے ہیں؟ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بے شمار لوگ کچلے جاتے ہیں، میں اس مسئلہ میں خاص پریشان تھا، مختلف علماء کرام سے بات چیت رہی کہ کسی طرح سے بارہویں تاریخ کے اوقات میں گنجائش ہونی چاہئے، بہت سے حضرات نے دبے لفظوں میں کہا بھی کہ بالکل اس سلسلہ میں تخفیف ہونی چاہئے، وہ تخفیف یہ ہے کہ جو لوگ بارہویں تاریخ کو فجر کے بعد اور زوال سے پہلے رمی کرتے ہیں اسے جائز قرار دیا جائے دم لازم نہ قرار دیا جائے، جبکہ خود امام اعظم ابوحنیفہؒ کا ایک قول مؤید بھی ہے کہ گیارہویں اور بارہویں کی رمی قبل الزوال جائز ہے۔ اور امام صاحب کی دلیل یہ ہے کہ جب دسویں تاریخ کو جو یوم النحر ہے اس میں رمی قبل الزوال ہے تو گیارہویں اور بارہویں کی رمی بھی قبل الزوال جائز ہونی چاہئے، کیونکہ یہ سب ایام ایام نحر ہیں۔ (تفصیلات دیکھئے: بدائع الصنائع ۲؍۱۳۷-۱۳۸) دوسری تخفیف یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مغرب کے بعد کنکری مارے تو تیرہویں تاریخ کی رمی اس پر واجب نہیں، اگر ہجوم کی وجہ سے لوگ تاخیر سے مغرب کے بعد رات کو رمی کرلیں اور مکہ مکرمہ اس کے بعد جانا چاہیں تواس کی گنجائش نکلنی چاہئے، زیادہ سے زیادہ اس میں کراہت کا فتویٰ ہے، جہاں رمی کے پہلے دن زوال کے بعد اور دوسرے دن غروب آفتاب کے بعد جو پہلے کراہت کا فتوی دیا جاتا تھا اب ہجوم کی وجہ سے کراہت کا فتویٰ نہیں دیتے ہیں تو اسی طرح اس آخری دن اگر کراہت کا فتویٰ اٹھالیں، تو امت کے لئے کافی آسانی ہوجائے گی، عوام بیچارے مکروہ کا لفظ یوں ہی سمجھتے ہیں جیسے کہ وہ حرام ہی ہو، آپ حضرات سے درخواست ہے کہ ان مسائل میں حتی الامکان توسع اختیار فرماکر تفصیلی جوابات سے نوازیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:بارہویں تاریخ کی رمی کا وقت زوال کے بعد سے شروع ہوتا ہے، امام اعظم علیہ الرحمہ کا مفتی بہ قول یہی ہے، اور جو روایت اس کے برخلاف مروی