خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
سوال بڑی شدت کے ساتھ سامنے آرہا ہے کہ رمی جمار کے اوقات کے سلسلہ میں معروف ائمۂ اُمت (حضرات صحابہ وتابعین وائمۂ مجتہدین) کے اقوال کی روشنی میں جو وسعت ہوسکتی ہے، ان کو اختیار کرکے ان حادثات پر قابو پانے کی کہاں تک گنجائش ہوسکتی ہے۔ اس تمہید کی روشنی میں درج ذیل سوالات آپ کی خدمت میں پیش ہیں: (۱) دس ذی الحجہ کی رمی طلوعِ آفتاب سے قبل صبح صادق سے کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: دسویں ذی الحجہ کو صبح صادق سے طلوع آفتاب تک کا وقت حنفیہ کے نزدیک گوکہ مکروہ ہے؛ لیکن اگر کسی عذر کی وجہ سے مثلاً خواتین یا کمزور لوگ مزدلفہ سے جلدی آکر اس درمیان رمی کرلیں تو وہ رمی معتبر ہوگی، اور ایسے لوگوں پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔ عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یأمر نساء ہ ثقلہ صبیحۃ جمع، أن یفیضوا مع أول الفجر بسواد، ولا یرموا الجمرۃ إلا مصبحین۔ (شرح معاني الآثار، الحج / باب وقت رمي جمرۃ العقبۃ للضعفاء ۲؍۲۹۳ رقم: ۳۸۹۲-۳۸۹۳، السنن الکبریٰ للبیہقي / باب الوقت المختار لرمي جمرۃ العقبۃ ۷؍۲۹۰ رقم: ۹۶۵۴) وفي روایۃ عنہ: أن رسول اللّٰہ علیہ وسلم بعثہ في الثقل وقال: لا ترموا الجمار حتی تصبحوا۔ (شرح معاني الآثار، الحج / باب وقت رمي جمرۃ العقبۃ للضعفاء ۲؍۲۹۳ رقم: ۳۸۹۳) أما الرمي في الیوم الأول فلأداء ہ وقت الجواز من الفجر إلی الفجر … ووقت مکروہ قبل طلوع الشمس وبعد الغروب وإن کان بعذر لاکراہۃ۔ (غنیۃ / باب رمي الجمار ۱۸۱ إدارۃ القرآن کراچی) أول وقت جواز الرمي في الیوم الأول، أي من أیام النحر، یدخل بطلوع الفجر الثاني من یوم النحر أظہرہ زیادۃ لبیانہ، فلایجوز قبلہ، وہٰذا وقت الجواز