خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
عنہ ظاہر فیما بعد الحلق۔ (البحر الرائق ۳؍۲۹ٰ زکریا، غنیۃ الناسک ۲۷۱ جدید) (۲) اور آپ نے طواف زیارت کے ترک پر دوبارہ احرام باندھنے سے متعلق ’’مسائل ومعلومات حج وعمرہ‘‘ کی جو عبارت پیش کی ہے اس میں واقعتہً تسامح ہوا ہے کیونکہ اصل مسئلہ یہی ہے کہ طواف زیارت کیے بغیر اگر کوئی شخص باہر چلا جائے تو ابھی اس کا احرام باقی ہے، اور وہ نیا احرام باندھے بغیر حرم میں آکر طواف زیارت ادا کرے گا، جیسا کہ اس عبارت سے واضح ہے: ولو ترک طواف الزیارۃ کلہ أو أکثرہ فہو محرم أبداً في حق النساء حتی یطوف فعلیہ حتما أن یعود بذٰلک الإحرام و یطوفہ … ثم إن جاوز الوقت یعود بإحرام جدید، وإن لم یجاوزہ عاد بذلک الإحرام الخ۔ (غنیۃ الناسک ۲۷۳ إدارۃ القرآن کراچی) وإن رجع إلی أہلہ فہو محرم من النساء أبدا فیعود إلی مکۃ بذٰلک الإحرام ولا یحتاج إلی إحرام جدید فیطوف للزیارۃ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۶۰۷ زکریا، الفتاویٰ الولوالجیۃ ۱؍۲۹۱ دار الکتب العلمیۃ بیروت) اور حائضہ عورت اگر حیض کی وجہ سے طواف زیارت ایام نحر سے موخر کرے، تو اس پر دم نہیں ہے، اس بارے میں بھی مسئولہ عبارت میں سبقت قلم ہوا ہے، اس کی تصحیح کرنی چاہئے۔ وہٰذا عند الإنان فلا شئ علی الحائض بتاخیرہ إذا لم تطہر إلا بعد أیام النحر۔ (غنیۃ الناسک ۹۵، ہکذا في الدر المختار ۲؍۵۱۹ کراچی، البحر الرائق ۳؍۳۷۰) ولا دم علی الحائض للتاخیر في قولہم؛ لأنہا ممنوعۃ، فکان التاخیر بعذر۔ (الفتاویٰ الولوالجیۃ ۱؍۲۹۱ دار الکتب العلمیۃ بیروت) لا شيء علی الحائض وکذا النفساء لتاخیر الطواف أي طواف الزیارۃ کما في الفتاویٰ السراجیۃ وغیرہا، مقید بما إذا حاضت في وقت لم تقدر علی أکثر الطواف أي قبل الطواف، أو حاضت قبل أیام النحر ولم تطہر إلا بعد مضي