خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
میں کہ: ہمارے یہاں بیت المال کا نظام قائم ہے، جس میں ہمارے محلہ ہی سے زکوٰۃ، صدقات، عطیات اور قربانی وغیرہ کی رقمیں جمع ہوتی ہیں؛ لیکن زیادہ تر ۲۵۰۰۰۰؍ رقم زکوٰۃ کی ہے، الغرض جتنی بھی رقم جمع ہوتی ہے، ان تمام کو ہم چند مصارف میں خرچ کرتے ہیں: (۱) امدادی کوپن، ہر ماہ ۸۵؍ غریب ونادار مسلم مکانات کرایہ پردیئے ہیں۔ (۲) تعلیمی امداد: غریب یتیم بچوں کو کتابیں، کاپیاں اور یونیفارم وغیرہ دیتے ہیں۔ (۳) امداد نکاح: غریب بہنوں کی شادیوں میں اشیاء کی مدد کرتے ہیں۔ (۴) رمضانی امداد: غریبوں میں کپڑے اور عید کے موقع پر شیر خورمہ کا سامان تقسیم کرتے ہیں، ہمارا یہ عمل بھی شریعت وسنت کی نظر میں صحیح ہے یانہیں؟ برائے مہربانی جواب حوالوں کے ساتھ جلد از جلد تحریر فرمائیں، نیز اس عمل میں ہماری صحیح رہبری بھی فرمائیں تاکہ ہمارا یہ عمل عند اﷲ مقبول ہوجائے، عین نوازش ہوگی۔ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: آپ نے زکوٰۃ کی رقومات کے جو مصارف ذکر کئے ہیں، اُن میں زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنے سے مالکان کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی؛ لیکن اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ یہ رقم صرف مستحق غرباء ومساکین پر ہی خرچ کی جائے۔ قال اللّٰہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ} [التوبۃ: ۶۰] قال: الأصل فیہ قولہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ} فہٰذہ ثمانیۃ أصناف … الفقیر … والمسکین … والعامل … والرقاب … والغارم … وفي سبیل اللّٰہ منقطع الغزاۃ … وابن السبیل، قال: فہٰذہ جہات الزکاۃ، فلما لک أن یدفع إلی کل واحد منہم ولہ أن یفتقر علی صنف واحد۔ (ہدایۃ / باب من یجوز دفع الصدقات إلیہ ومن لا یجوز ۱؍۲۰۴ أشرفیۃ دیوبند، الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۱۹۸ زکریا، البحر الرائق / باب المصرف ۲؍۲۴۰ کراچی) مصرف الزکوۃ والعشر ہو فقیر۔ (الدرالمختار ۳؍۲۸۳ زکریا)