خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
دے، اسی صفحہ میں لکھتے ہیں کہ طوافِ افاضہ/ زیارت کو سب سے مؤخر کرنا سنت ہے، سب سے پہلے یا درمیان میں کرے، تو کوئی حرج نہیں؛ لیکن مکروہ ہے (زبدۃ) الغرض ضعیف بیمار اور بہت کوشش کے بعد وہ تاخیر ہو گئی ہے، اس کے متعلق شرعاً گنجائش ہے یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسئولہ صورت میں آپ کا طوافِ زیارت تو شرعاً ادا ہوگیا؛ لیکن وقتِ مقررہ کے تاخیر کی وجہ سے ایک دم جنایت لازم ہے؛ اس لئے کہ اگر آپ کوشش کرتے تو وقت کے اندر اندر آپ طواف کرسکتے تھے؛ لیکن آپ نے تاخیر کی، اس لئے قصور کی وجہ سے جنایت لازم ہے، جسے آپ کبھی بھی حدودِ حرم میں ادا کرسکتے ہیں۔ عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أتی إلی البیت فصلی بمکۃ الظہر، یعني: یوم النحر۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، کتاب الحج / باب من زار یوم النحر ۸؍۱۱۰-۱۱۱ رقم: ۱۳۲۰۶ المجلس العلمي) عن وبرۃ قال: کان الأسود إذا رمی الجمرۃ یوم النحر زار البیت من یومہ، ثم رجع إلی منزلہ من یومہ، حتی ینفِر مع الناس إذا نفروا۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۸؍۱۱۲ رقم: ۱۳۲۰۷ المجلس العلمي) عن التمیمي عن أبي قلابۃ وجابر بن زید: أنہما زارا البیت یوم النحر۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۸؍۱۱۲ رقم: ۱۳۲۱۳ المجلس العلمي) والحاصل: أن طواف الزیارۃ مؤقت بأیام النحر وتأخیرہ عنہا یوجب الدم عندہ۔ (البحر العمیق ۲؍۱۱۲۹) وأما الواجب فہو فعلہ في یوم من الأیام الثلاثۃ عند أبي حنیفۃ حتی لو أخرہ عنہا مع الإمکان لزمہ دم، وقد ورد في الحدیث أن النبي صلی