خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
البیت علی یسارہ … ولنا قولہ تعالیٰ: {وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ} [الحج: ۲۹] مطلقاً عن شرط البداء ۃ بالیمین أو الیسار۔ وفعل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم محمول علی الوجوب وبہ نقول کذا ذکرہ القاضي في شرح مختصر الطحاوي: أنہ یجب علیہ الإعادۃ ما دام بمکۃ، وإن رجع إلی أہلہ یجب علیہ الدم، وکذا ذکر في الأصل کما حکاہ صاحب البدائع۔ (البحر العمیق ۲؍۱۱۵۰ المکتبۃ المکیۃ، کذا في الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۶۰۲ زکریا، بدائع الصنائع ۲؍۳۱۲ نعیمیۃ دیوبند) وأما جعل البیت عن یسارہ فاختلف فیہ والأصح الوجوب۔ (فتح القدیر ۳؍۵۸ بیروت) ولو عکس أعاد ما دام بمکۃ فلو رجع فعلیہ دم (درمختار) وتحتہ في الشامي: ولو عکس بأن أخذ عن یسارہٖ وجعل البیت عن یمینہ، وکذا لو استقبل البیت بوجہہ أو استدبرہ وطاف معترضاً کما في شرح اللباب وغیرہ۔ (شامي ۲؍۴۹۴ کراچی، درمختار مع الشامي ۳؍۵۰۶ زکریا) تنبیہ:- لیس شيء من الطواف یجوز عندنا مع استقبال البیت۔ (غنیۃ الناسک ۱۱۳) والحاصل أن وجوب التیامن یفید أن من أتی بخلافہ من الصور المذکورۃ المخالفۃ للتیامن في الہیئۃ، والکیفیۃ یحرم علیہ فعلہ ویجب علیہ الإعادۃ أو لزوم الجزاء۔ (شرح مناسک ۷۲، غنیۃ الناسک ۱۱۳ جدید، زبدۃ المناسک مع عمدۃ المناسک ۱۲۱) ج:- اگر بیت اللہ کے اِرد گرد بھیڑ وغیرہ کچھ نہ ہو اور کوئی شخص جان بوجھ کر بحالتِ طواف چہرہ وسینہ بیت اللہ کی طرف کرے، تو وہ واجبِ تیاسر کا تارک کہلائے گا، اور اس کے ذمہ اعادہ لازم ہوگا، ورنہ دم کے وجوب کا حکم لگایا جائے گا؛ لیکن اگر مطاف میں اِژدحام ہو اور کسی شخص کا چہرہ یا پیٹھ بحالتِ طواف بلا ارادہ واختیار بیت اللہ شریف کی طرف ہوجائے تو معذور سمجھا جائے گا، اس کا طواف بلا کراہت درست ہوگا، نہ اس پر اعادہ لازم ہے اور نہ دم واجب ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے پیدل طواف کرنا واجب ہے؛ لیکن اگر کسی عذر کی وجہ سے