خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
خلاصہ یہ ہے کہ جدہ کلی طور پر مطلق میقات نہیں ہے؛ بلکہ اسے محاذات یا مسافت کے اعتبار سے ہی میقات کے حکم میں رکھا گیا ہے۔ (راقم الحروف نے اس موضوع پر مفتی مدینہ منورہ حضرت مولانا مفتی محمد عاشق الٰہی بلندشہری مہاجر مدنی نور اللہ مرقدہٗ سے ایک طویل گفتگو کی تھی، موصوف کی رائے بھی یہی تھی کہ جو شخص کسی عین میقات سے گذرکر آیا ہو، اس کے لئے کوئی بھی محاذاتی جگہ بشمول جدہ میقات نہیں بن سکتی، اسے کسی نہ کسی عین میقات پر واپس جانا پڑے گا) واللہ تعالیٰ اعلم۔ ولو لم یمر بہا تحری وأحرم إذا حاذی أحدہا وأبعدہا أفضل (درمختار) وقال الشامي: کذا في الفتح، ومفادہ أن وجوب الإحرام بالمحاذاۃ إنما یعتبر عند عدم المرور علی المواقیت، أما لو مر علیہا فلا یجوز لہ مجاوزۃ اٰخر ما یمر علیہ منہا، وإن کان یحاذي بعدہ میقاتاً اٰخر۔ (رد المحتار ۳؍۴۲۶ بیروت، ومثلہ في الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۲۱، البحرالرائق ۲؍۵۵۷ زکریا) تنبیہ:- فلو مر بمیقات ومحاذاۃ الثاني لا تعتبر المحاذاۃ۔ (غنیۃ الناسک ۵۳) تنبیہ:- فلو کان یمر بواحد منہا عیناً فلا تعتبر المحاذاۃ بعدہ۔ (غنیۃ الناسک ۵۴) وإن لم یعلم المحاذاۃ فعلی مرحلتین عرفیتین من مکۃ کجدۃ من طرف البحر، فإنہا علی مرحلتین عرفیتین من مکۃ وثلاث مراحل شرعیۃ۔ (غنیۃ الناسک ۵۴، ومثلہ في الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۲۱، فتح القدیر ۲؍۴۲۶، البحر الرائق ۲؍۵۵۷ زکریا) نوٹ:- شہر ’’جدہ‘‘ جحفہ (رابغ) اور ’’یلملم‘‘ کے درمیان واقع ہے، اب اگر نقشہ کے اعتبار سے جحفہ سے یلملم تک لکیر کھینچی جائے تو یہ لکیر مقام ’’بحرہ‘‘ سے گذرتی ہے جو جدہ سے کچھ فاصلہ پر مکہ معظمہ کے راستہ پر واقع ہے، اس اعتبار سے جدہ ’’حل‘‘ سے باہر ہوجاتا ہے، جیساکہ ’’زبدۃ المناسک‘‘ میں حضرت مولانا شیر محمد صاحب سندھیؒ نے ایک نقشہ بناکر اس کی وضاحت