خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
راستہ سے جدہ پہنچے کہ اس کا گذر کسی عین میقات سے نہ ہو، مثلاً مصر اور سوڈان سے بحری راستہ سے آنے والے لوگ، یا افریقہ اور مغرب وغیرہ سے ہوائی راستہ سے آنے والے حجاج، تو ان کے لئے جدہ اکثر علماء کے نزدیک میقات کے حکم میں ہے؛ لہٰذا وہ جدہ آکر احرام باندھ سکتے ہیں، پہلے سے احرام باندھنا ان پر لازم نہیں ہے؛ لیکن جو حضرات مذکورہ پانچ متعینہ مواقیت میں سے کسی عین میقات سے گذرکر آئیں، مثلاً مدینہ منورہ سے طریق الہجرۃ سے مکہ معظمہ جانے والا شخص یقینا ’’ذوالحلیفہ‘‘ سے گذرے گا، جو متعین میقات ہے،اب اگر وہ ذوالحلیفہ سے احرام نہ باندھے؛ بلکہ جدہ آکر احرام باندھے تو اس کے لئے جدہ میقات نہیں ہے؛ کیوںکہ فقہاء کا اصول ہے کہ: ’’عین میقات سے گذرنے والے کے لئے بعد میں محاذات سے گذرنے کا کوئی اعتبار نہیں‘‘، اور جدہ عین میقات نہیں؛ بلکہ محاذات یا مسافت کے اعتبار سے میقات کے حکم میں ہے؛ اس لئے مدینہ سے خشکی کے راستہ سے آنے والے شخص کے لئے جدہ تک احرام کو مؤخر کرنا جائز نہیں ہوگا؛ لہٰذا اگر وہ جدہ سے احرام باندھے گا تو مذکورہ اصول کے مطابق اس پر دمِ جنایت واجب ہونا چاہئے؛ البتہ مدینہ منورہ سے بذریعہ ہوائی جہاز جدہ آنے والے شخص کا گذر عین میقات ذوالحلیفہ سے نہیں ہوتا؛ بلکہ وہ ’’ذوالحلیفہ‘‘ کی محاذات سے گذرکر جدہ پہنچتا ہے؛ لہٰذا ایسی صورت میں اگرچہ اولیٰ یہی ہے کہ پہلی محاذات سے قبل احرام باندھ لیا جائے؛ لیکن دوسری محاذات تک مؤخر کرنے کی بھی گنجائش ہے؛ لہٰذا مدینہ منورہ سے ہوائی سفر کرکے جدہ آکر احرام باندھنے کی گنجائش ہوگی۔ ہندوپاک اور دیگر مشرقی علاقوں سے جو ہوائی جہاز جدہ جاتے ہیں، ان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ’’قرن المنازل‘‘ کی عین میقات سے گذرتے ہیں؛ لہٰذا مذکورہ اصول کے تحت ہوائی سفر کرنے والے حجاج کے لئے ’’قرن المنازل‘‘ کی میقات سے قبل احرام باندھنا لازم ہے، اور جدہ تک احرام کو مؤخر کرنا جائز نہیں ہے؛ البتہ اگر یہ تحقیق ہوجائے کہ جہاز کا گذر عین ’’قرن المنازل‘‘ سے نہیں ہوا؛ بلکہ اس کی محاذات سے ہوا ہے، تو ایسے لوگوں کے لئے جدہ جاکر بھی احرام باندھنے کی گنجائش ہوسکتی ہے۔