خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
تعلیم دیتی ہے، اب مکان کی صورتِ حال یہ ہے کہ برسات میں پانی اندر داخل ہوگیا، جس کے باہر نکلنے کی کوئی صورت نہیںہے، اگر بھراؤ کراکر اونچا کرتا ہوں تو تمام دروازے اٹھانے ہوںگے، اس طرح بہت خرچ ہوگا، اس کے بعد دو صورتیں پیش آئیں گی۔ (۱) ہمارے مرنے کے بعد دوسرے بیٹے مکان میں اپنا حصہ بناکر چھوٹے لڑکے سے جھگڑا کریں گے۔ (۲) ہمارا اِرادہ دوسری بار والدین کی طرف سے حج کرنے کا تھا وہ نہیں ہوسکے گا، دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ جب بیٹوں کو اپنی حیات میں علیحدہ کرکے ان کے حصص دئیے گئے، تو کیا مرنے کے بعد وہ چھوٹے بیٹے سے کچھ لینے کا حق رکھتے ہیں، دوسرے فرض حج ادا کرنے کے بعد مذکورہ بالا صورت میں والدین کی طرف سے حج کرنا بہتر ہے، یامکان کو سدھارنا ضروری ہے؟ جس میں ہرطرح کی تکلیف ہے، برسات اور گرمی میں سخت پریشانی کا سامنا کرنا ہوتا ہے، از روئے شرع صحیح عمل کیا ہوگا؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:جب آپ نے جائیداد تقسیم کرکے اپنے لڑکوں کو علیحدہ کرکے دے دیا ہے، تو وہ اس کے مالک ہوگئے، آپ کے ذمہ یہ ضروری ہے کہ اپنے چھوٹے بیٹے کو بھی اسی کے برابر حصہ ہبہ کرکے اس کے نام رجسٹرڈ کرادیں؛ تاکہ آئندہ کسی قسم کا جھگڑا پیدا نہ، اور جب کہ آپ کو مکان بنانے کی ضرورت ہے، نہ بنانے کی صورت میں مشقتوں کا سامنا ہوسکتا ہے، تو اس صورت میں نفلی حج کے بجائے مکان کی ضروری تعمیر کا مشورہ مناسب ہے۔ فرض مرۃ علی الفور علی مسلم حر مکلف صحیح بصیر ذي زاد وراحلۃ فضلاً عما لا بد منہ۔ (التنویر مع الدر المختار ۲؍۵۵-۴۶۱ کراچی، ۳؍۴۵۰-۴۶۲ زکریا، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۱۹ کوئٹہ، ہدایۃ / کتاب الحج ۱؍۲۳۱، کنزالدقائق / کتاب الحج ۱؍۷۳، البحر الرائق ۲؍۳۱۱ کوئٹہ، بدائع الصنائع ۲؍۳۰۱ زکریا)