خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس شخص پر حج فرض ہوجائے تو اس پر جلد از جلد اس فریضہ کی ادائیگی لازم ہے، لڑکی کی شادی یا اس جیسے عذر کی وجہ سے حج کو مؤخر کرنے کی اجازت نہیں ہے، اور آپ نے سوال میں جن موہوم خیالات کی ترجمانی کی ہے، ان کا شریعت میں کوئی اعتبار نہیں ہے، شریعت کی نظر میں حج وعمرہ کا سفر فقر کا سبب نہیں؛ بلکہ مال داری میں اضافہ کا سبب ہے؛ چنانچہ ایک حدیث شریف میں فرمایا گیا کہ کثرت سے حج وعمرہ کرنے سے غنا نصیب ہوتا ہے، اور تجربہ اس کا شاہد ہے ؛ اس لئے یہ سمجھنا کہ حج کرنے سے آدمی ایسا فقیر ہوجائے گا کہ بعد میں بچی کی شادی کرنے کے لائق نہ رہے گا، محض جہالت کی بات ہے، ایسے خیالات سے اجتناب کی ضرورت ہے۔ (انوار مناسک ۱۶۸) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تابعوا بین الحج والعمرۃ، فإنہما ینفیان الفقر والخطایا کما ینفي الکیر خبث الحدید۔ (المعجم الکبیر للطبراني ۱۱؍۱۴۶، سنن الترمذي ۱؍۱۶۷، جامع الأحادیث رقم: ۱۱۱۴۲) ونقل العلي المتقي الہندي عن مسند الفردوس عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ: الحج قبل التزویج۔ (کنز العمال، الحج والعمرۃ / الفصل الثالث في آداب الحج ومحظوراتہ ۵؍۱۰ رقم: ۱۱۸۷۶ دار الکتب العلمیۃ بیروت) وفي الینابیع: إن کان لہ مقدار ما یحج بہ وعزم علی التزوج، ذکر ابن شجاع عن أبي حنیفۃ أنہ یحج ولا یتزوج۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۴۷۳ رقم: ۴۸۸۲ زکریا) سئل أبوحنیفۃ عمن لہ مال: أیحج بہ أم یتزوج؟ قال: یحج بہ۔ (البحر العمیق / الباب الثالث في مناسک الحج ۱؍۳۸۱ المکتبۃ المکیۃ مکۃ المکرمۃ) قال الشامي بحثا: أما لو خافہ فالتزوج واجب لا فرض، فیقدم الحج الفرض علیہ۔ (شامي ۳؍۴۶۱ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۵؍۵؍۱۴۲۹ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہ