خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
برائی ہے، ہاں بھروسہ اﷲ کی ذات پر رکھنا چاہئے اسباب پر نہیں، تاریخ گواہ ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسباب بھی پیدا کئے اور کامیابی کے لئے دعائیں بھی مانگیں، جنگیں بھی لڑیں اور صلح بھی کیں، بدر کے میدان میں جب تین سو تیرہ مسلمانوں کے مقابلہ میں ایک ہزار کافروں کا لشکر سامان حرب سے لیس کھڑا تھا تو اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے اﷲ کی بارگاہ میں فتح ونصرت کی دعائیں بھی مانگی تھیں، اور میسر اسباب (مؤمنین) کے ساتھ کفار کا مقابلہ بھی کیا تھا، یہ اﷲ کا اپنے بندوں پر احسان اور کرم ہے کہ وہ بندوں کے پیدا کئے ہوئے کسی سبب کے بغیر بھی انہیں کامیابی عطا کرسکتا ہے، ابرہہ نے جب اپنے ہاتھی والے لشکر کے ساتھ خانہ کعبہ کو ڈھانے کے ارادہ سے مکہ پر حملہ کیا تھا تو عبد المطلب کے پاس کوئی فوج نہیں تھی، وہ کسی طرح ابرہہ کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے، عبد المطلب اس وقت خانہ کعبہ کے متولی تھے، انہوں نے غلاف کعبہ کو پکڑ کر اﷲ سے دعاء مانگی اور کہا کہ اے اﷲ اپنے گھر کو تو ہی بچا سکتا ہے اﷲ نے مدد بھیجی، آسمان سے ابابیلوں کو غول نمودار ہوا جس نے ابرہہ کے لشکر پر کنکریوں سے حملہ کردیا، ابابیلیں اپنی چونچ سے چھوٹی چھوٹی کنکریاں گراتی تھیں، وہ کنکریاں ایسی تھیں کہ ہاتھی پر بھی گرجاتیں تو ہاتھی وہیں ڈھیر ہوجاتا تھا، اس طرح اﷲ نے ابرہہ کے لشکر کو تباہ کیا اور اپنے گھر کی حفاظت کی اﷲ چاہتا تو ابرہہ کے لشکر کو بغیر کسی سبب کے بھی تباہ کرسکتا تھا، اور وہ لشکر جہاں کھڑا تھا وہیں بغیر کسی ظاہری سبب کے ریت میں مل سکتا تھا، لیکن اﷲ نے ایسا نہیں کیا؛ بلکہ اس نے اس لشکر کو تباہ کرنے کے لئے سبب (ابابیلیں) پیدا کیا، اﷲ مسبب الاسباب ہے وہ چاہے تو ہماری کسی کوشش کے بغیر بھی ہماری ضرورتیں پوری کرنے کے اسباب پیدا کرسکتا ہے؛ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اپنی کوششیں ترک کردیں اور ہاتھ پر ہاتھ رکہ کر بیٹھ جائیں، ہمارا دین ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ سوال:- بے شک اﷲ چاہے تو غیب سے ایسے اسباب پیدا فرماسکتا ہے کہ اس بیٹی کی شادی آناً فاناً ہوجائے؛ لیکن یہ بہتر ہوتا کہ وہ شخص پہلے بیٹی کی شادی کرتا اس کے بعد جب استطاعت ہوتی تو حج پر جاتا، اس معاملہ میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے مفصل جواب عنایت فرمائیں، نوازش ہوگی؟