خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
میلوں کے لئے رعایتیں دیتی ہے، تو مسلمانوں کو بھی وہ رعایتیں حاصل کرنی چاہئے، کہاں تک صحیح ہے؟ مسلمان کی اپنی ایک شان ہے، اس کا امتیاز ہے، دوسروں کی نقالی کرنا بالخصوص فریضۂ اسلام کی ادائیگی میں اس کو کیا زیب دیتا ہے؟ ملت کا ایک طبقہ کہتا ہے کہ حج کے لئے مسلمان کو شرائط کی روشنی میں خود کفیل ہونا چاہئے، تکلّفات، احسانات اور بالخصوص حکومت کے زیر احسان حج کرے، یہ امر روحِ اسلام کے خلاف معلوم ہوتا ہے، پتہ نہیں یہ سبسڈی صرف ہمارے سیکولر ملک میں ہے یا دیگر اسلامی ممالک میں بھی اس کی نظیر پائی جاتی ہے، حضرات علماء کرام سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ کتاب وسنت کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: حج سبسڈی حکومتِ ہند کی طرف سے حجاجِ کرام کے تعاون کی ایک شکل ہے، مسلمانوں کو اس رعایت سے فائدہ اٹھانے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے، اور حکومت پر اقتدار اعلیٰ چوں کہ غیر مسلموں کو حاصل ہے، اس لئے ان کے آپسی معاملات اگرچہ سودی ہوں، پھر بھی ان کا تعاون لینا منع نہیں ہے۔ وہدیۃ أہل الحرب أي للإمام وإلا فہي للآخذ فقط۔ (تقریرات الرافعي علی حاشیۃ ابن عابدین / باب العشر ۱۳۹ زکریا) وأما الہدیۃ للمشرکین وأہل الکتاب، وقبول ہدایاہم کل ذٰلک جائز إذا کانوا ذمۃ لنا، وکذٰلک إذا کانوا أہل حرب۔ (إعلاء السنن، کتاب الہبۃ / باب الہدیۃ للمشرکین و قبول الہدیۃ منہم ۱۶؍۱۴۶ إدارۃ القرآن کراچی) قال العلامۃ التھانوي: إن الہدیۃ والصدقۃ والہبۃ والعطیۃ معانیہا متقاربۃ۔ (إعلاء السنن، کتاب الہبۃ / باب في قبول الہبۃ ۱۶؍۸۱ دار الکتب العلمیۃ بیروت) و أہل الذمۃ في حکم الہبۃ بمنزلۃ المسلمین؛ لأنہم التزموا أحکام