خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
نیز غیر حاضری میں اہل وعیال اور متعلقین کا نان ونفقہ اور دیگر ضروریات پوری کرنے کی حیثیت رکھتا ہے، اس پر فریضۂ حج لازم آتا ہے، اسلام اس کے لئے تکلفات قرض اور کسی کے احسان کو پسند نہیں کرتا، ہمارے ملک ہندوستان سے عازمین حج بڑی تعداد میں مرکزی حج کمیٹی کے ذریعہ سفر کرتے ہیں اور پرائیویٹ ٹورز اور ٹراولس کے ذریعہ حج کرنے والوں کی بھی خاصی تعداد ہے، سینٹرل حج کمیٹی حکومتِ ہند کا ایک ادارہ ہے جس کا کام پلی گریم پاس یعنی عارضی پاس پورٹ بنانا، زر مبادلہ دینا، حرمین شریفین میں قیام کا انتظام کرنا وغیرہ ہے، بحری جہاز میں کرایہ کم تھا، اس وقت سبسڈی دی جاتی تھی یانہیں؟ اس کا علم نہیں؛ لیکن جب سے وہ بند ہوئے اور ہوائی جہاز سے سفر شروع ہوا تو کرایہ میں بھی زبردست اضافہ ہوگیا، اس وقت مسلمان قائدین کی درخواست پر حکومتِ ہند نے کرایہ میں سبسڈی کے نام سے رعایت دینی شروع کی، ہوائی جہاز ایئر انڈیا کی چارٹر ہو یا کسی بھی ایئر لائنس کی ہو، حکومت ہر ایئر لائنس کو فی کس 770 ؍ڈالر تقریباً 35,000 روپئے اپنی طرف سے ادا کرتی ہے، جب کہ حاجیوں سے کرایہ صرف 12,000 لیتی ہے، بقیہ 23,000 روپئے اپنی طرف سے ادا کرتی ہے، امسال جو ایک لاکھ حاجی سنٹرل حج کمیٹی کے ذریعہ حج کے سفر پر گئے ہیں، ان کی طرف سے حکومت نے 225 کروڑ روپیہ ادا کیا ہے، یہ امر بھی تحقیق طلب ہے کہ وہ رقم کہیں مشکوک تو نہیں؟ حکومت سبسڈی آخر کس مد سے دیتی ہے؟ عام طور پر حجاج اس سے ناواقف ہوتے ہیں؛ لیکن اب یہ بات علم وشعور میں آنے لگی ہے کہ حکومت اس کو احسان سمجھتی ہے اور ملک کے دیگر طبقات میں اس کا اظہار بھی کیا جاتا ہے اور مسلمانوں کے ساتھ مراعات واحسانات میں سبسڈی کو گنا یا اور جتلایا جاتا ہے، یہ کہنا کہ حکومت ہم سے بہت سے ٹیکس وصول کرتی ہے اور پھر وہی رقم ہمیں سبسڈی کے نام سے دے دیتی ہے، کہاں تک صحیح ہے؟ جب کہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ حکومت کی طرف سے بہت سے فلاح وبہبودی کے کام عوام کے لئے بلا تفریق مذہب وملت انجام دئے جاتے ہیں، جیسے اسکول چلانا، ہسپتال چلانا اور سڑکیں بنوانا وغیرہ، اسی طرح یہ کہنا کہ حکومت جب دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو ان کے مذہبی تہواروں