خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
عشری زمین میں پیدا وار کی کاشت پر جو اخراجات آئے ہیں وہ منہا نہیں کئے جائیںگے؛ بلکہ پوری اصل پیداوار کا دسواں حصہ نکالنا واجب ہوگا، ہاں اگر وہ زمین ڈول یا ٹیوب ویل وغیرہ سے سیراب کی گئی ہے تو پھر اس میں عشر نہیں؛ بلکہ نصف عشر یعنی بیسواں حصہ نکالنا واجب ہوتا ہے۔ عن سالم بن عبد اللّٰہ عن أبیہ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: فیما سقت الماء والعیون أو کان عثریًا العشر، وما سقي بالنضح نصف العشر۔ (صحیح البخاري / باب العشر فیما یسقي من ماء السماء رقم: ۱۴۸۳، فتح الباري ۴؍۴۴۳ دار الکتب العلمیۃ بیروت) استدل العلامۃ الکاساني بہٰذا الحدیث علی وجوب العشر من غیر احتساب الأجرۃ والنفقۃ، قال: ولا یحتسب لصاحب الأرض ما أنفق علی الغلۃ من سقي أو عمارۃ أو أجر الحافظ أو أجر العمال أو نفقۃ البقر لقولہ علیہ السلام: ’’وما سقتہ السماء ففیہ العشر، وما سقي بغرب أو دالیۃ أو سانیۃ ففیہ نصف العشر‘‘۔ أوجب العشر ونصف العشر مطلقاً عن احتساب ہٰذہ المؤن ولأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أوجب الحق علی التفاوت لتفاوت المؤن، ولو رفعت المؤن لارتفع التفاوت۔ (بدائع الصنائع للکاساني / بیان مقدار الواجب ۲؍۱۸۵ زکریا) لایحتسب فیہ أجرۃ العمال ونفقۃ البقر؛ لأن النبي ں حکم بتفاوت الواجب لتفاوت المؤنۃ فلا معنی لرفعہا۔ (ہدایۃ ۱؍۲۰۳ زکوٰۃ الزروع والثمار) وفي الہندیۃ: ولا تحسب أجرۃ العمال ونفقۃ البقر وکری الأنہار وأجرۃ الحافظ وغیر ذٰلک، فیجب إخراج الواجب من جمیع ما أخرجتہ الأرض عشراً أو نصفاً۔ کذا في البحر۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۷، کذا في الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۷۷، المحیط البرہاني ۳؍۲۹۰، الدر المختار ۳؍۲۶۹ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۰؍۷؍۱۴۱۳ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ