خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
میں کہ: زید ایک صاحبِ نصاب شخص ہے، اس کے علاقہ میں ایک مکتب ومدرسہ تقریبا ۲۵ یا ۳۰ سال قبل بچوں کو ضروری دینی تعلیم دینے کی غرض سے قائم کیا گیا تھا، زمانہ قیام کے چند برسوں کے بعد مکتب ومدرسہ مذکورہ مسلکی اختلاف کا شکار ہوا، متعلقہ موضع اور اطراف کے باشندگان کے عدم مالی وفکری تعاون کی وجہ سے مکتب ومدرسہ مذکور میں تعلیم وتدریس کا کام عرصہ سے ملتوی رہا، انہیں حالات کے پیش نظر متولی مدرسہ نے بچوں کو ضروریات دین کی بنیادی تعلیم دینے کے لئے ایک مدرس کا نظم کیا اور ملازم کی تنخواہ اور دیگر ضروریات مدرسہ کے واسطہ مالی تعاون کی درخواست کی۔ اب دریافت طلب امریہ ہے کہ مذکورہ مکتب ومدرسہ میں نادار طلبہ کو ضروریاتِ دین کی تعلیم دینے کی غرض سے مقرر کئے گئے مدرس یا ملازم کی تنخواہ اور دیگر اخراجات کے لئے امدادی یا چندے کی رقم مہیا نہ ہونے کی وجہ سے انتہائی دقت وپریشانی کا سامنا ہونے کے سبب شدید مجبوری کی حالت میں حیلۂ تملیک کے ذریعہ مد زکوٰۃ کی رقم کا استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اور مکتب ومدرسہ مذکور کی اعانت مد زکوٰۃ سے مذکورہ حالات کے پیشِ نظر کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ شدید ضرورت کے پیشِ نظر زکوٰۃ وصدقاتِ واجبہ کی رقومات حیلۂ تملیک کے بعد مدرسین کی تنخواہوں میں لگانے کی گنجائش ہے، پھر بھی حتی الامکان کوشش کی جائے کہ زکوٰۃ کے علاوہ امدادی رقومات حاصل ہوں، اور ان سے مدرسہ کی ضروریات پوری کی جائیں۔ عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت کان في بریرۃ ثلاث سنن … ودخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم والبرمۃ تفور بلحم، فقرب إلیہ خبر وأدم من أدم البیت، فقال: ألم أر برمۃ فیہا لحم؟ قالوا: بلیٰ! ولکن ذٰلک لحم تصدق بہ علی بریرۃ، وأنت لا تأکل الصدقۃ، قال: ہو علیہا صدقۃ ولنا ہدیۃ۔ (صحیح البخاري، الطلاق / باب لا یکون بیع الأمۃ طلاقاً رقم: ۵۲۷۹، فتح الباري ۱۲؍۵۰۵ دار الکتب العلمیۃ بیروت) قال الشیخ عبد الحق المحدث الدہلوي تحت قولہ: ’’ولنا ہدیۃ‘‘ أي إن