خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
جن مدارس کی طرف سے یہ اپنے کو سفیر بتاتے ہیں، ان مدارس والے حضرات کے کوائف سے صحیح واقفیت کا حاصل ہونا کارے دارد ہے، ایسے میں اطمینانِ قلب کی کیا صورت ہو؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر آپ کو کسی سفیر یا مدرسہ کے بارے میں اطمینان ہوجائے اور آپ بلا تکلف اس کو زکوٰۃ کی رقم دے دیں، تو آپ کے ذمہ سے فریضہ ساقط ہوجائے گا، اب سفیر پر لازم ہے کہ وہ پوری رقم حسبِ ضابطہ مدرسہ کے فنڈ میں جمع کرے، اس کے بعد ہی اپناطے شدہ حق المحنت حاصل کرے، اگر وہ سفیر اس میں کوتاہی کرتا ہے تو وہ خود اس کا ذمہ دار ہوگا، اور زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ (مستفاد: فتاویٰ محمودیہ ۹؍۵۱۳ ڈابھیل، کفایۃ المفتی ۴؍۲۵۶) حدثنا أبو الجویریۃ أن معن بن یزید رضي اللّٰہ عنہ حدثہ قال: بایعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنا وأبي وجدي وخطب علي فأنکحني وخاصمت إلیہ کان أبي یزیدُ أخرج دنانیر یتصدق بہا فوضعہا عند رجل في المسجد فجئت فأخذتہا فأتیتہ بہا، فقال: واللّٰہ ما إیاک أردتُ، فخاصمت إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: لک ما نویت یا یزید، ولک ما أخذت یا معن۔ (صحیح البخاري، کتاب الزکاۃ / باب إذا تصدق علی ابنہ وہو لا یشعر ۱؍۱۹۱ رقم: ۱۴۲۲، فتح الباري ۴؍۳۷۱ بیروت) سئل ابن الفضل عمن دفع جواہر إلی رجل لیبیعہا فقال القابض أنا أریہا تاجراً لأعرف قیمتہا فضاعت الجواہر قبل أن یریہا قال: إن ضاعت أو سقطت بحرکتہٖ ضمن، وإن سرقت منہ أو سقطت لمزاحمۃ أصابتہ من غیرہ لم یضمن۔ (الفتاوی الہندیۃ ۴؍۳۴۲ دار الفکر بیروت) ولو دفع بتحر فبان أنہ غني أو ہاشمي أو کافر أو أبوہ أو ابنہ صح