خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
میں کہ: ہمارے مدرسہ میں ڈھائی سو طالبات زیر تعلیم ہیں، جن کے قیام وطعام کا نظم نہیں ہے، تمام طالبات مقامی ہیں، دینی تعلیم عربی سوم اور دنیوی تعلیم پانچویں کلاس تک دی جاتی ہے، اس کے ساتھ سلائی بھی سکھائی جاتی ہے، معلمات کی تنخواہیں بجلی فون، ودیگر اخراجات سالانہ چھ لاکھ سے زیادہ ہیں، معلمات وخدام کا عملہ ۱۶؍ افراد پر مشتمل ہے، قدیم طالبات سے وقت داخلہ دو سو روپیہ اور جدید طالبات سے تین سو روپیہ داخل فیس لی جاتی ہے، کتابیں خود خرید لیتی ہیں، تعلیم پر ماہانہ کوئی فیس نہیں لی جاتی ہے، مفت تعلیم کا نظم ہے، اکثر طالبات غریب ونادار ہیں، بہت ہی کم طالبات حیثیت والی ہیں، مذکورہ اخراجات چندہ ہی سے پورے ہوتے ہیں، چندہ دہندگان اکثر زکوٰۃ ہی کی رقم دیتے ہیں،حسبۃً للہ یا عطیہ بالکل ہی کم ہوتی ہے۔ دینی تعلیم سے اتنی لاپرواہی وبے رغبتی ہے کہ تعلیم پر ماہانہ فیس کا مطالبہ کیا جائے تو تعلیم موقوف کردیتی ہیں، جو دینی تعلیم سے محرومی وخسران کا سبب ہے، جس کا انہیں احساس بھی نہیں، ان حالات کے پیشِ نظر کیا زکوٰۃ کی رقم حاصل کرکے غریب طالبات کو مالکہ بنائیں، وہ اپنی تعلیمی فیس ادا کریں، جس کو مدرسہ کے مذکورہ اخراجات میں استعمال کریں یامہتمم صاحب سکریٹری صاحب طالبات کی طرف سے وکیل بن کر رقم زکوٰۃ حاصل کریں، اس کو اخراجات مدرسہ میں استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں؟ اگر اس کی اجازت ہے، تو اس کی کیا صورت ہے؟ اگر ناجائز ہے تو اس کی کیا وجہ ہے؟ یا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسئولہ صورت میں زکوٰۃ کی رقم غریب طالبات کو وظیفہ کے طور پر دے کر ان سے فیس کے عنوان سے واپس لے کر مدرسہ کی ضروریات پوری کرنے کی گنجائش ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ ۹؍۵۹۰-۶۰۶ ڈابھیل) عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لاتحل الصدقۃ لغني إلا في سبیل اللّٰہ، أو ابن السبیل أو جار فقیر یتصدق علیہ فیہدی لک أو یدعوک۔ (سنن أبي داؤد، کتاب الزکاۃ ۱؍۲۳۱ رقم: ۱۶۳۷)