خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
لتمویہ باطل، فہي مکروہۃ، وکل حیلۃ یحتال بہا الرجل لیتخلص بہا عن حرام أو لیتوصل بہا إلی حلال فہي حسنۃ۔ (الفتاوی الہندیۃ ۶؍۳۹۰ دار الفکر بیروت) دوسری بحث یہ ہے کہ حیلہ کا طریقہ کیا ہو؟ تو اس سلسلے میں تین صورتیں اکابر کے زمانے سے جاری ہیں: الف:- کسی غریب فقیر کو زکوٰۃ کی رقم دے کر کے واقعۃً مالک بنادیا جائے، پھر اسے ترغیب دی جائے کہ وہ ضرورت کی جگہ پر اپنی جانب سے خرچ کرے۔ إن الحیلۃ أن یتصدق علی الفقیر ثم یأمرہ بفعل ہذہ الأشیاء والحیلۃ من أراد ذٰلک أن یتصدق ینوي الزکاۃ علی فقیر، ثم یأمر بعد ذٰلک بالصرف إلی ہٰذہ الوجوہ فیکون لصاحب المال ثواب الصدقۃ ولذٰلک الفقیر ثواب ہٰذہ الصرف۔ (الفتاویٰ التاتاخانیۃ ۳؍۲۰۸ زکریا) والدفع إلی من علیہ الدین أولیٰ من الدفع إلی الفقیر۔ (الفتاوی الہندیۃ۱؍۱۸۸دار الفکر بیروت) ب:- دوسری صورت یہ ہے کہ فقیر سے کہا جائے کہ وہ کسی سے قرضِ حسنہ لے کر مدارس وغیرہ کی ضرورت میں لگادے، پھر اس فقیر کا قرضہ زکوٰۃ کی رقم سے ادا کردیا جائے۔ (فتاویٰ محمودیہ ۹؍۴۷۷ ڈابھیل، آپ کے مسائل اور ان کا حل جدید ۵؍۱۶۱-۱۶۰) وحیلۃ الجواز أن یعطي مدیونہ الفقیر زکاتہ ثم یأخذہا عن دینہ۔ (درمختار ۲؍۲۷۱ کراچی، البحر الرائق ۲؍۲۲۸) ج:- تیسری صورت یہ ہے کہ طلبہ کی فیس مقرر کی جائے اور ہر مہینے انہیں فیس کی رقم بمد زکوٰۃ دے کر پھر ان سے فیس کی رقم جمع کرالی جائے۔ (فتاویٰ رحیمیہ ۵؍۱۵۰، کفایۃ المفتی ۴؍۲۹۳) وحیلۃ التکفین بہا التصدق علی فقیر ثم ہو یکفن فیکون الثواب لہما وکذا في تعمیر المسجد۔ (درمختار ۲؍۲۷۱ کراچی)