خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
اس مکتب میں گاؤں ہی کے بچے تعلیم پاتے ہیں، دس بارہ بچے دوسرے گاؤں سے آتے ہیں۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ یہ لوگ جو امداد کے ذریعہ سے مدرس کی تنخواہ کا انتظام نہیں کرسکتے، نیز دینی کام میں پیسے دینے سے بھی لوگ رغبت نہیں رکھتے، ان کے لئے صدقۃ الفطر اور چرمِ قربانی کی رقم سے مدرس کی تنخواہ کا انتظام کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ بصورتِ جواز تملیک کی بہتر شکل کیا ہوگی؟ بصورتِ عدم جواز مدرسہ بند بھی ہوسکتا ہے۔ نوٹ:- اس مکتب کا قیام دینی تعلیم سے غافل اور دلچسپی نہ رکھنے والے لوگوں کو علم دین کی ترغیب دے کر اور فضائل بیان کرکے عمل میں آیا ہے، ورنہ لوگوں کو دینی مکتب چلانے کا نہ کوئی جذبہ تھا اور نہ یہ فکر تھی کہ بچے جاہل رہ جائیں اور دین سے ناواقف رہ جائیںگے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: عام حالات میں زکوٰۃ، صدقۂ فطر اور چرمِ قربانی کی رقم مدرس کی تنخواہ میں دینا جائز نہیں، ہاں اگر واقعۃً مذکورہ مکتب کی مالی حالت اس قابل نہیں کہ بغیر ان رقومات کے اسے باقی نہ رکھا جاسکے، اور مکتب کے بند ہوجانے کا قوی اندیشہ ہے، تو ایسی اضطراری اور مجبوری کی حالت میں مذکورہ رقم حیلۂ تملیک کے ذریعہ مدرس کی تنخواہ میں لگائی جاسکتی ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ ۵؍۱۴۹-۱۵۴-۱۵۷، فتاویٰ دارالعلوم ۶؍۲۵۰، فتاویٰ محمودیہ ۹؍۶۰۵ ڈابھیل، کفایت المفتی ۴؍۲۸۵) عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لاتحل الصدقۃ لغني إلا في سبیل اللّٰہ، أو ابن السبیل أو جار فقیر یتصدق علیہ فیہدی لک أو یدعوک۔ (سنن أبي داؤد، کتاب الزکاۃ ۱؍۲۳۱ رقم: ۱۶۳۷) ولا تدفع الزکاۃ لبناء مسجد؛ لأن التملیک شرط فیہا ولم یوجد، وکذا بناء القناطر وإصلاح الطرقات وکری الأنہار والحج والجہاد، وکل ما لا تملیک فیہ، وإن أرید الصرف إلی ہٰذہ الوجوہ صرف إلی فقیر، ثم یأمر بالصرف إلیہا فیثاب المزکی والفقیر۔ (مجمع الأنہر ۱؍۲۲۲ دار إحیاء التراث بیروت)