خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: شریعت میں زکوٰۃ کا منشا فقراء اور محتاجین کی ضرورتوں کو پورا کرنا ہے، اور ان میں یہ خیال رکھا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ فقراء اور ضرورت مند اس رقم سے مستفید ہوں، یہ مقصود نہیں ہے جسے زکوٰۃ دی جارہی ہے وہ خود مال دار بن جائے، شریعت کی اسی سنت کو مدنظر رکھتے ہوئے حضراتِ فقہاء نے کسی ایک مستحق زکوٰۃ کو جب کہ وہ مقروض نہ ہو، نصاب سے زائد رقم یک مشت دینے کو مکروہ لکھا ہے؛ لہٰذا مسئولہ صورت میں اگر زید عمر عبد اللہ اپنی زکوٰۃ کی مکمل رقمیں ایک ایک مستحق کو یک مشت دے دیں تو گوکہ ان کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی، مگر ایسا کرنا مکروہ ہوگا۔ ویکرہ أن یدفع إلی رجل مائتي درہم فصاعداً وإن دفعہ جاز۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۸) ویکرہ لمن علیہ الزکاۃ أن یعطي فقیراً مائتي درہم أو أکثر، ولو أعطی جاز وسقط عنہ الزکاۃ في قول أصحابنا الثلاثۃ … ولنا: أنہ إنما یصیر غنیًا بعد ثبوت الملک لہ، فأما قبلہ فقد کان فقیراً فالصدقۃ لاقت کف الفقیر فجازت، وہٰذا لأن الغنا یثبت بالملک والقبض شرط ثبوت الملک، فیقبض ثم یملک المقبوض ثم یصیر غنیًا، ألا تری أنہ یُکرہ؛ لأن المنتفع بہ یصیر ہو الغني۔ (بدائع الصنائع ۲؍۱۶۰ نعیمیۃ دیوبند) سئل الشیخ أبو حفص الکبیر عمن یعطي الزکاۃ إلی الفقراء أحب أم إلی من علیہ دین لیقضي دینہ؟ قال: إلی من علیہ الدین لیقضي دینہ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۲۱ رقم: ۴۱۸۳ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۷؍۹؍۱۴۱۷ھ