خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
في شرح مشکاۃ المصابیح ۴؍۳۰۰ دار النوادر) مدیون لا یملک نصابا فاضلا عن دینہ، وفي الظہیریۃ: الدفع للمدیون أولی منہ للفقیر۔ (الدرالمختار مع الشامي ۳؍۲۸۹ زکریا) وکرہ إعطاء فقیر نصابا أو أکثر إلا إذا کان المدفوع إلیہ مدیوناً، أو کان صاحب عیال بحیث لو فرقہ علیہم لایخص کلا، أو لا یفضل بعد دینہ نصاب فلا یکرہ۔ (الدر المختار مع الشامي / باب المصرف ۳؍۳۰۴ زکریا، مجمع الأنہر الزکاۃ / فی بیان أحکام المصارف ۱؍۳۳۳ بیروت) قولہ: والمدیون أطلقہ کالقدوري، وقیدہ في الکافي بأن لا یملک نصابا فاضلاً عن دینہ؛ لأنہ المراد بالغارم في الآیۃ، وہو في اللغۃ: من علیہ دین ولا یجد قضاء کما ذکرہ القُتَیبي … وفي الفتاویٰ الظہیریۃ: الدفع إلی من علیہ الدین أولی من الدفع إلی الفقیر۔ (البحر الرائق / باب المصرف ۲؍۲۴۲ کراچی) سئل الشیخ أبو حفص الکبیر عمن یعطي الزکاۃ إلی الفقراء أحب أم إلی من علیہ دین لیقضي دینہ؟ قال: إلی من علیہ الدین لیقضي دینہ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۲۱ رقم: ۴۱۸۳ زکریا) ولو أبرأ رب الدین المدیون بعد الحول فلا زکاۃ۔ (الدر المختار مع الشامي ۳؍۲۴۰ زکریا) وحیلۃ الجواز أن یعطی مدیونہ الفقیر زکاتہ، ثم یأخذہا عن دینہ۔ (الدر المختار مع الشامي ۳؍۱۹۰ زکریا) ولو قضیٰ دین الفقیر بزکاۃ مالہ إن کان بأمرہ یجوز۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۹۰) فإن کان مدیوناً فدفع إلیہ مقدار ما لو قضی بہ دینہ لا یبقی لہ شيء أو یبقی دون المائیین لا بأس بہ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۸، فتح القدیر ۲؍۲۷۸ بیروت) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۳؍۷؍۱۴۳۰ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہ