خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
میں کہ: سبھی لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ سید کو زکوٰۃ خیرات صدقۂ فطر وغیرہ نہیں دینا چاہئے، مگر صورت حال یہ ہے کہ ایک سید صاحب کی لڑکی کا رشتہ شیخ صاحب کے لڑکے سے ہوا اور شادی بھی ہوگئی، مگر کچھ دنوں کے بعد اس شیخ صاحب کے لڑکے کا انتقال ہوگیا، اور یہ بے چاری بیوہ ہوگئی اور اب بہت پریشان ہے، بے بس ہے اور لا چار ہے، تو ہم ایسی بے بس لاچار پریشان حال بیوہ کو جو کہ سیدہ ہے، اپنی خیرات، صدقۂ فطر وغیرہ دے سکتے ہیں؟ جب کہ یہ بیوہ سیدہ خاندان سے تعلق رکھتی ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: سیدہ عورت کو زکوٰۃ دینا درست نہیں ہے، اس کا تعاون صدقات نافلہ سے کرنا چاہئے، اگر ناگزیر صورت ہو تو حیلۂ تملیک کی گنجائش ہے، یعنی کسی غیر سیدہ فقیر کو زکوٰۃ دی جائے اور فقیر وہ رقم اپنی جانب سے سیدہ پر خرچ کردے۔ (امداد المفتیین ۴۶۵، امداد الفتاوی ۲؍۲۷، فتاوی رحیمیہ ۸؍۲۴۰) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في حدیث طویل … إن الصدقۃ لا تنبغي لآل محمد إنما ہي أوساخ الناس۔ (صحیح مسلم ۱؍۳۴۴ رقم: ۱۰۸۲) ولا إلی بني ہاشم - إلی قولہ - ثم ظاہر المذہب إطلاق المنع، قال الشامي: یعني سواء في ذلک کل الأزمان، وسواء في ذٰلک دفع بعضہم لبعض، ودفع غیرہ لہم۔ (الرد المحتار ۳؍۲۹۹ زکریا) ولا یدفع إلی بني ہاشم وہم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقیل وآل الحارث بن عبد المطلب۔ (الفتاوی الہندیۃ ۱؍۱۸۹) وجازت التطوعات من الصدقات وغلۃ الأوقاف لہم أي لبني ہاشم۔ (الدر المختار مع الشامي ۳؍۳۰۰ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۷؍۲؍۱۴۲۷ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہ