خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
ہے، ہم لوگ اپنی زکوٰۃ کی ایک خطیر رقم (چالیس پچاس ہزار ولاکھ روپئے تک) ان کو دیتے ہیں، زکوٰۃ لینے والا ان روپے کو لے کر شادی کی خرافات مثلاً ناچ، گانا، بجانا، باراتیوں کے استقبال میں خرچ کرنا اور نقدی (تلک) دینا اور دیگر لہو ولعب اور فضولیات میں بے دھڑک خرچ کرتا ہے، زکوٰۃ دینے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ زکوٰۃ کی رقم لے کر شادی کی رسم ورواج میں خرچ کرے گا، اور زکوٰۃ دینے والا ان کو زکوٰۃکی رقم اس لئے دیتا ہے کہ تعلقات ختم نہ ہوں، اور ہمارے یہاں سے کام کرنا چھوڑ نہ دے، تو کیا یہ {وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ} کے خلاف نہیں ہے؟ اور خود اس مزکی کو ان تمام برائیوں کا بدلہ نہیں ملے گا؟ سوال کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس سے مزکی کی زکوٰۃ ادا ہوگی یا نہیں؟ اور کسی کو زکوٰۃ کی اتنی رقم دینا کہ جس سے وہ خود صاحب نصاب یا اس سے بہت زیادہ ہوجائے، کیسا ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: جن شادیوں میں خرافات ہوتی ہوں، ان میں زکوٰۃ کی رقم دینا جائز نہیں، اگر وہ پہلے سے صاحب نصاب ہوں، تو زکوٰۃ دینے والے کی زکوٰۃ ادا نہ ہوگی، اور اگر وہ صاحبِ نصاب نہیں ہیں، پھر بھی ایسے فاسقوں کو زکوٰۃ دینے کی قطعاً اجازت نہیں، یہ گناہ پر تعاون ہے اور بیک وقت اتنی بڑی رقم دینا جس سے وہ صاحبِ نصاب ہوجائے، اتنا زیادہ زکوٰۃ دینے کو فقہاء نے مکروہ لکھا ہے۔ قال اللّٰہ تعالیٰ: {وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ} [المائدۃ: ۲] عن ابن عمررضي اللّٰہ عنہما عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا تحل الصدقۃ لغني ولا لذي مرۃ سوي۔ (سنن الترمذي ۱؍۱۴۱ رقم: ۶۴۷) مصرف الزکاۃ ہو فقیر وہو من لہ أدنیٰ شيء أي دون نصاب أو قدر نصاب غیر تام مستغرق في الحاجۃ۔ (درمختار ۳؍۲۸۴ زکریا) ولا إلی غني یملک قدر نصاب فارغ عن حاجتہ الأصلیۃ من أي مال کان۔ (درمختار ۳؍۲۹۵ زکریا)