خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
کے لئے زکوٰۃ کا روپیہ لے سکتے ہیں۔ {اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ} [التوبۃ: ۶۰] لڑکیوں کی شادی کی تیاری میں زکوٰۃ کی رقم جمع نہ کریں؛ بلکہ ویسے ہی امداد (علاوہ زکوٰۃ وصدقات واجبہ) لے سکتے ہیں، اگر بہت ضرورت ہو تو شادی میں صرف اتنی زکوٰۃ کی رقم لی جائے جس سے نصاب پورا نہ ہو، یعنی ۴؍۵؍ہزار روپیہ اس سے زیادہ رقم جمع ہونے کے بعد زکوٰۃ لینا درست نہ ہوگا۔ قال اللّٰہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ} [التوبۃ: ۶۰] عن قبیصۃ بن مخارق … قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم … یا قبیصۃ! إن المسئلۃ لا تحل إلا لأحد ثلاثۃ: … ورجلٌ أصابتہ جائحۃٌ احتاحت مالہ فحلت لہ المسئلۃ …الخ۔ (صحیح مسلم رقم: ۱۰۴۴، بحوالہ: لمعات التنقیح في شرح مشکاۃ المصابیح ۴؍۳۰۰ دار النوادر) وکرہ إعطاء فقیر نصابا أو أکثر إلا إذا کان المدفوع إلیہ مدیوناً، أو کان صاحب عیال بحیث لو فرقہ علیہم لایخص کلا، أو لا یفضل بعد دینہ نصاب فلا یکرہ۔ (الدر المختار مع الشامي / باب المصرف ۳؍۳۰۳ زکریا، مجمع الأنہر الزکاۃ / فی بیان أحکام المصارف ۱؍۳۳۳ بیروت) قولہ: والمدیون أطلقہ القدوري، وقیدہ في الکافي بأن لا یملک نصابا فاضلاً عن دینہ؛ لأنہ المراد بالغارم في الآیۃ، وہو في اللغۃ: من علیہ دین ولا یجد قضاء کما ذکرہ القُتَیبي … وفي الفتاویٰ الظہیریۃ: الدفع إلی من علیہ الدین أولی من الدفع إلی الفقیر۔ (البحر الرائق / باب المصرف ۲؍۲۴۲ کراچی) باب المصرف أي مصرف الزکاۃ والعشر ہو فقیر وہو من لہ أدنی شيئٌ أي دون نصاب - إلی قولہ - ومسکین من لا شيء لہ فیحتاج إلی المسئلۃ بقوتہ وما یواري بدنہ۔ (شامي ۳؍۲۸۳ زکریا، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۷، فتاویٰ نظامیہ ۱؍۱۰۷، فتاویٰ رحیمیہ ۵؍۱۶۱) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۲؍۹؍۱۴۱۴ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ