خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
مرفوعاً، قال: المدینۃ حرم ما بین عیر إلی ثور۔ (صحیح مسلم، کتاب الحج / باب فضل المدینۃ … وبیان حدودہا ۱؍۴۴۲ رقم: ۱۳۷۲) اور ائمہ ثلاثہ (امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ) کے نزدیک حرم مدینہ کی بھی وہی حیثیت ہے جو حرم مکہ کی ہے کہ اس حد میں شکار وغیرہ کرنا جائز نہیں ہے، جب کہ حنفیہ کے نزدیک حرم مدینہ کی وہ حیثیت نہیں ہے، اس سلسلہ کی احادیث استحباب اور تکریم پر محمول ہیں اور سوال میں ذکر کردہ امام مالکؒ کا عمل اگر صحیح سند سے ثابت ہو تو یہ ان کا ذاتی عمل ہوگا، جو دوسروں کیلئے قابل تقلید نہیں ہے۔ عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم طلع لہ أحد فقال: ہٰذا جبل یجنا ونحبہ، اللّٰہم إن إبراہم حرم مکۃ وإني أحرم ما بین لابتیہا۔ (سنن الترمذي ۲؍۲۳۰) قال في الکافي: لأنا عرفناہ حل الاصطیاد بالنص القاطع، فلایحرم إلا بدلیل قطعي ولم یوجد۔ (شامي ۴؍ ۵۲ زکریا) ثم حرمۃ الحرم خاصۃ بمکۃ عندنا، ولیس للمدینۃ حرمۃ الحرم في حق الصیود والاستجار ونحوہا، وقال الشافعي: للمدینۃ حرمۃ الحرم حتی أن من قتل صیدا فیہا فعلیہ الجزاء لقولہ علیہ السلام: إن إبراہیم علیہ السلام حرم مکۃ وأنا أحرم ما بین لابیتہا یعني المدینۃ، وقال: من رأیتموہ یصطاد في المدینۃ فخذوا ثیابہ، وحجتنا في ذٰلک ما روي: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أعطی بعض الصبیان في المدینۃ طائراً، فطار من یدیہ فجعل یتأسف علی ذٰلک، ورسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: ’’یا أبا عمیر ما فعل النغیر‘‘ اسم ذٰلک الطائر … و لو کان للصید في المدینۃ حرمۃ الحرم لما ناولہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم صبیا؛ ولأن ہذہ بقعۃ یجوز دخولہا بغیر إحرام فتکون قیاس سائر البلدان بخلاف الحرم فإنہ لیس أحدا أن یدخلہا إلا محرما۔ (المبسوط للسرخسي / قتل المحرم البازي المعلم جزء: ۴؍۱۰۵، کذا في البحر الرائق / فصل: قتل محرم صیدا أو دل علیہ من قتلہ ۳؍۴۳ الشاملۃ) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصور پوری غفر لہ ۲۳؍ ۳؍ ۱۴۲۶ھ