خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
تعمیر میں کئی لاکھ کا صرفہ آیا تھا، وہ بھی زکوٰۃ ہی کے مدسے ہوا، اب میں اپنے ذاتی کاروبار کے لئے اسے استعمال کرنا چاہتا ہوں، اس کی میرے نزدیک دو شکلیں ہیں، ایک تو یہ کہ میں اسے کرایہ پر لے لوں اور ہر ماہ مناسب رقم ادا کروں، اس صورت میں کیا کرایہ کی رقم مد زکوٰۃ میں شمار ہوگی؟ دوسری شکل یہ ہے کہ زمین کو مستقلا خرید لوں؛ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کی قیمت کون سی لگے گی، آج سے دس سال پہلے کی جو تعمیر سمیت ساڑھے سات لاکھ تھی، یا آج کی موجودہ قیمت جو تقریبا ۵۰ لاکھ ہے؟ از راہ کرم تفصیلی وتحقیقی جواب سے نوازیں۔ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو زمین زکوٰۃ کی رقم سے اور زکوٰۃ کی نیت سے خریدی اور تعمیر کی گئی ہے وہ صرف غرباء کا حق ہے، لازم ہے کہ فوری طور پر وہ عمارت مع زمین فقراء کو دیکر ان کو مکمل طور پر مالک بنادیا جائے، ورنہ آپ کے والد صاحب آخرت میں سخت مؤاخذہ دار رہیںگے، اور اپنی زکوٰۃ مصرف تک نہ پہنچانے کے ذمہ دار ہوںگے، اس لئے اولاد کی یہ شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ پہلی فرصت میں یہ جگہ مصرف کے حوالہ کریں، اور اسے اپنے ذاتی استعمال میں ہر گز نہ لائیں، آپ کے لئے نہ تواسے کرایہ پر لینا جائز ہے اور نہ اسے براہ راست خریدنا جائز ہے؛ بلکہ پہلے غریبوں کو مالک بنایا جائے تاکہ زکوٰۃ ادا ہوجائے، اس کے بعد وہ اگر بلا کسی دباؤ کے فروخت کرنا چاہیں، تو ان سے موجودہ قیمت پر ہی خریدا جائے، دباؤ ڈال کر ان سے قیمت کم کراکے حیلہ کرنا ہرگز جائز نہ ہوگا۔ قال اللّٰہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ} [التوبۃ: ۶۰] ولا یخرج عن العہدۃ بالعزل؛ بل بالأداء للفقراء۔ (درمختار ۳؍۱۸۹ زکریا) إذا دفع الزکاۃ إلی الفقیر لایتم الدفع مالم یقبضہا۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۹۰) وإذا لم یؤد إلی آخر عمرہ یتضیق علیہ الوجوب، حتی لو لم یؤد حتی مات یأثم۔ (شامي ۳؍۱۹۱ زکریا، احسن الفتاوی ۴؍۲۶۵) فقط واﷲ تعالی اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۳۰؍۴؍۱۴۲۴ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہ