خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
ہے، اور کسی بھی نامحرم کے ساتھ سفر کی اجازت نہیں ہے، آپ جب بھی جائیں تو ایسے شخص کے ساتھ جائیں جو آپ کا محرم ہو یا شوہر ہو۔ محرم اسے کہتے ہیں جس سے کبھی بھی نکاح درست نہ ہوسکتا ہو۔ (معلم الحجاج ۸۴) عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا یحل لامرأۃ تؤمن باللّٰہ والیوم الآخر أن تسافر سفراً یکون ثلاثۃ أیام فصاعداً إلا ومعہا أبوہا، أو أخوہا، أو زوجہا، أو ابنہا، أو ذو محرم منہا۔ (صحیح البخاري رقم: ۱۱۹۷، صحیح مسلم رقم: ۸۲۷، سنن أبي داؤد رقم: ۱۷۲۶، سنن الترمذي رقم: ۱۱۶۹، سنن ابن ماجۃ رقم: ۲۸۹۸، الترغیب والترہیب مکمل ۶۴۵ رقم: ۴۶۷۷ بیت الأفکار الدولیۃ) ومع زوج أو محرم قال الشامي: والمحرم من لایجوز لہ مناکحتہا علی التابید بقرابۃ أو رضاع أو صہریۃ۔ (درمختار مع الشامي ۴؍۴۶۴ زکریا، امداد الفتاوی ۲؍۲۰۱) ومنہا المحرم للمرأۃ شابۃ کانت أو عجوزاً إذا کانت بینہا وبین مکۃ مسیرۃ ثلاثۃ أیام۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۱۸) وفي الشامي: قولہ: ومع زوج أو محرم۔ ہٰذا وقولہ: ومع عدم عدۃ علیہا، شرطان مختصان بالمرأۃ۔ (در مختار مع الشامي ۲؍۴۶۴ کراچی، ۳؍۴۶۴ زکریا) ولو کان معہا محرم فلہا أن تخرج مع المحرم في الحجۃ الفریضۃ۔ (بدائع الصنائع ۲؍۳۰۰ زکریا) والمرأۃ في وجوب الحج علیہا کالرجل غیر أن لہا شرطین شابۃ کانت أو عجوزاً، أحدہما أن یکون خروجہا مع زوجہا، أو مع ذي رحم محرم۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۴۷۵ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۹؍۶؍۱۴۱۷ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ