خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
وصلوٰۃ کا پابند ہے، ساتھ لے جارہا ہے، زید کا یہ بھائی مال دار نہیں ہے، اس پر حج فرض نہیں ہے، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ حج بدل وہی آدمی کرسکتا ہے جو پہلے اپنا حج کرچکا ہو، زید کا بھائی جو حج مرحومہ کی طرف سے حج کرنے کی نیت سے کرے گا اس کا کیا رہے گا یا اس کو کس طرح نیت کرنی چاہئے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: بہتر ہے کہ حج بدل ایسے شخص سے کرایا جائے جو اپنا حج پہلے کرچکا ہو؛ لیکن اگر اپنا حج فرض ادا کئے بغیر بھی کوئی شخص دوسرے کی طرف سے حج بدل کرلے تو بھی صحیح ہوجاتا ہے؛ لہٰذاآپ اپنے مذکورہ بھائی کو مرحومہ بیوی کی طرف سے حج بدل کے لئے لے جاسکتے ہیں، وہ اسی مرحومہ کی طرف سے احرام باندھے گا اور نیت کرے گا، حج بدل کے احکامات مسائل حج کی کتابوں میں ملاحظہ کئے جائیں۔ عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما: أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم سمع رجلا یقول: لبیک عن شبرمۃ قال: من شبرمۃ؟ قال: أخ لي، أو قریب لي، قال: حججت عن نفسک؟ قال: لا، قال: حج عن نفسک ثم حج عن شبرمۃ۔ (سنن أبي داؤد / باب الرجل یحج عن غیرہ رقم: ۱۸۱۱) واختلف في أن من لم یحج عن نفسہ، ہل یجوز لہ أن یحج عن غیرہ؟ … وعند الحنفیۃ: یکرہ لہ ما لم یحج عن نفسہ واستدل المانعون بحدیث ابن عباس ہٰذا وقالوا: ہٰذا الحدیث یدل علی أنہ یجب علیہ أن یحج عن نفسہ، ثم یحج عن غیرہ۔ (بذل المجہود ۷؍۵۹-۱۵۸مرکز الشیخ أبي الحسن الندوي، مظفر فور أعظم جراہ) والأصل إحجاج الحر العالم بالمناسک الذي حج عن نفسہ۔ (البحر الرائق ۳؍۶۹ کراچی، ۳؍۱۲۳ زکریا) والأفضل أن یکون قد حج عن نفسہ؛ لأنہ بالحج عن غیرہ یصیر تارکاً إسقاط الحج عن نفسہ فیتمکن في ہٰذا الإحجاج ضرب کراہۃ؛ ولأنہ إذا کان