خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
ہیں ان کو حدود حرم کے اندر اپنی قربانی کرانا لازم ہے، اور چوںکہ وقت مقررہ یعنی ایام نحر میں قربانی نہیں ہوئی، اس لئے بطور جنایت مزید ایک ایک قربانی لازم ہوگی۔ قال اللّٰہ تعالیٰ: {وَلَا تَحْلِقُوْا رُؤُوْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہٗ} قال ابن جریر الطبراني: فإن کان أحرم بالحج فمحلہ یوم النحر … وإن ہو رجع لم یزل محرما حتی ینحر عنہ یوم النحر، فإن ہو بلغہ أن صاحبہ لم ینحر عنہ عاد محرما وبعث بہدي آخر، فواعد صاحبہ یوم النحر عنہ بمکۃ ویحل۔ (تفسیر الطبراني ۳؍۶۷-۳۶۶) قال أبو حنیفۃ وأصحابہ: إذا حل المحصر قبل أن ینحر ہدیۃ فعلیہ دم ویعود حراما کما کان حتی ینحر ہدیۃ۔ (الجامع لأحکام القرآن ج ۱ جزء: ۱؍۳۵۳ المکتبۃ التجاریۃ) وفي الحدیث الطویل أخرج البخاري ومسلم بأسانیدہم فیہ ثم لم یتحلل من شيء حرم منہ حتی قضی حجہ، ونحر ہدیہ یوم النحر وأفاض وطاف بالبیت، ثم حل من کل شيء حرم منہ۔ (صحیح البخاري رقم: ۱۶۹۱، صحیح مسلم رقم: ۱۲۲۷، کذا إعلاء السنن ۱؍۳۳۶ رقم: ۲۸۷۶) وکذٰلک لو بعث الہدي وواعدہم أن یذبحوا عنہ في الحرم في یوم بعینہ ثم حل من إحرام علی ظن أنہم ذبحوا عنہ فیہ، ثم تبین أنہم لم یذبحوا فإنہ یکون محرما۔ (بدائع الصنائع / حکم الإحصار ۲؍۳۹۹ زکریا) ویختص ذبحہ بالمکان وہو الحرم، وبالزمان وہو أیام النحر حتی لو ذبح قبلہا لم یجز بالإجماع ولو ذبح بعدہا أجزأہ بالإجماع، ولکن کان تارکا للواجب عند الإمام یجب بین الرمي والحلق ولا آخر لہ في حق السقوط۔ (غنیۃ قدیم ۱۲۸) ولو أخر القارن والمتمتع الذبح عن أیام النحر فعلیہ دم۔ (غنیۃ ۱۴۹)