خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا نا دارا شخص جو بقدر نصاب مال کا مالک نہ ہو، اسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، پھر جو جتنا زیادہ محتاج ہوگا اتنا ہی مستحق زکوٰۃ ہوگا، خواہ یہ محتاجگی معذوری کی وجہ سے ہوا یا کسی اور وجہ سے۔ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تحل الصدقۃ لغني: قال القاري: قال في المحیط: الغني علی ثلاثۃ أنواع: … وغني یحرم السؤال دون الصدقۃ، وہو أن یکون لہ قوت یومہ وما یستر عورتہ۔ (بذل المجہود / باب من یعطي من الصدقۃ وصانعہ ۶؍۴۸۰ تحت رقم: ۱۶۳۴ جدید) الغني علی ثلاثۃ أقسام:أحدہا: أن یملک نصاباً نامیًا من جنس واحد۔ والثاني: أن یملک قدر نصاب غیر نامٍ زائد علی قدر حاجتہ۔ والثالث: من لا یملک نصابًا۔ فالأول: تجب علیہ الزکاۃ ویحرم علیہ أخذہا۔ والثاني: لا تجب علیہ الزکاۃ، غیر أنہ یحرم علیہ أخذہا، وتجب علیہ الفطرۃ والأضحیۃ۔ والثالث: لا یجب علیہ شيء، وجاز لہ أخذ الزکاۃ، ویحرم علیہ السؤال ما دام یملک قوت یوم ولیلۃ: ہٰذا ملخص ما في ’’البحر الرائق‘‘ بإیضاح۔ (معارف السنن / باب من تحل لہ الزکاۃ ۵؍۲۵۷، کذا في البحر الرائق / باب المصرف من کتاب الزکاۃ ۲؍۲۴۰-۲۵۰ کراچی) ویجوز دفعہا إلی من یملک أقل من النصاب وإن کان صحیحاً۔ (الفتاوی الہندیۃ ۱؍۱۸۹) وقد اختلف الناس في جواز أخذ الصدقۃ لمن یجد قوۃ یقدر بہا علی