خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: شرعی طور پر آبادی کا ایک مطلب تو واضح ہے کہ وہاں بالفعل لوگ رہائش اختیار کرتے ہوں، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہاں رہائش کے انتظامات ہوں اگر چہ بالفعل لوگ موجود نہ ہوں، مثلاً کسی بڑی کالونی کے رہنے والے لوگ کسی خاص موقعہ پر اسے خالی کرکے چلے جائیں، تو اس سے یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ کالونی شہر سے باہر ہوگئی ہے؛ بلکہ رہائشی انتظامات ہونے کی بنیاد پر اسے آبادی کے دائرہ میں ہی داخل سمجھا جائے گا، بعینہٖ یہی صورتِ حال منی کی بھی ہے کہ وہاں پر کچھ عمارتیں تو ایسی ہیں جو بالفعل آباد رہتی ہیں، اور بقیہ جو خیمے وغیرہ لگائے گئے ہیں وہ بھی مضبوط اور مستحکم ہیں، ان میں رہائش کے سب انتظامات موجود ہیں، اور ایام منی میں ان سے استفادہ کیا جاتاہے، اس لئے منی کے اس علاقہ کو مطلقاً غیر آباد نہیں کہا جا سکتا ۔ ۱:- وإن کان في الجانب الذي خرج منہ محلۃ منفصلۃ عن المصر وفي القدیم کانت متصلۃً بالمصر لایقصر الصلاۃ حتی یجاوز تلک المحلۃ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۳۹، خلاصۃ الفتاویٰ ۱؍۱۹۸ أشرفیۃ دیوبند، البحر الرائق ۲؍۲۶۶ زکریا، شامي ۲؍۶۰۰ زکریا) ۲:- وإن کانت المحلۃ بعیدۃ من المصر، وکانت قبل ذلک متصلۃ بالمصر فإنہ لایقصر حتی یجاوز تلک المحلۃ ویخلف دورہا۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ ۲؍۴۹۴ رقم: ۳۰۹۶ زکریا) ۳:- وأراد بالمحلۃ في المسألتین ما کان عامراً، أما لو کانت المحلۃ خراباً لیس فیہا عمارۃ فلا یشترط مجاوزتہا في المسألۃ الأولیٰ ولو متصلۃ بالمصر، کما لایخفی فعلی ہذا لا یشترط مجاوزۃ المدارس التي في سفح قاسیون إلا ما کان لہ أبنیۃ قائمۃ کمسجد الأفرم والناصریۃ۔ (شامي ۲؍۶۰۰ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۵؍۵؍۱۴۳۵ھ