خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس مسئلہ کے بارے میں صریح جزئیہ نہیں ملا؛ لیکن قواعد واصول سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسئولہ صورت میں جو دم دس ذی الحجہ کی رمی چھوڑنے کی نیت سے دیا گیا ہے وہ گیارہ تاریخ کی رمی چھوڑنے کی طرف سے کافی نہ ہوگا؛ بلکہ گیارہ کے ترک پر الگ سے دم ہوگا، ہاں اگر یہ پہلے دم نہ دیا ہوتا؛ بلکہ ساری رمی کے ترک کا مرتکب ہوتا تو پھر اس کے لئے ایک ہی دم دینا کافی ہوجاتا، اس مسئلہ کی نظیر روزہ کے کفارہ کا مسئلہ ہے کہ اگر عمداً افطار کے بعد کفارہ ادا کردیا ہے، پھر بعد میں یہی جرم پایا گیا تو ازسرنو کفارہ دینا ہوگا، اور اگر افطار کے متعدد واقعات پیش آچکے اور بیچ میں کفارہ نہیں دیا تو بعد میں ایک ہی کفارہ کافی ہوجاتا ہے۔ ولو لم یرم في اللیل رماہ في النہار، ولو قبل الزوال قضاء عندہ، وعلیہ الکفارۃ للتاخیر الخ، ولو أخر رمی الأیام کلہا إلی الرابع مثلا رماہا کلہا قبل الزوال، أو بعدہ علی التالیف عندہ، وعلیہ دم واحد للتاخیر۔ (غنیۃ الناسک ؍۱۸۲ إدارۃ القرآن کراچی، کذا في الرد المحتار ۳؍۵۴۲ زکریا) ولو ترک الکل وہو الجمار الثلاث فیہ للزمہ دم عندہ … فإن ترک الرمي کلہ في سائر الأیام إلی آخر أیام الرمي، وہو الیوم الرابع فإنہ یرمیہا فیہ علی الترتیب وعلیہ دم عندہ … ثم علی قولہ: لا یلزمہ إلا دم واحد، وإن کان ترک وظیفۃ یوم واحد بانفرادہ یوجب دما واحدا وقع ذٰلک لا یجب علیہ لتأخیر الکل إلا دم واحد۔ (بدائع الصنائع / وقت الرمي ۳؍۳۲۶ نعیمیۃ دیوبند، کذا في المناسک لملا علي القاري / باب رمي الجمار وأحکامہ ۲۴۱ إدارۃ القرآن کراچی، وکذا في الہدایۃ ۱؍۲۷۵ أشرفیۃ دیوبند) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۷؍۱۰؍۱۴۲۹ھ