خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
کی رمی دسویں شب کے نصف سے کی جاسکتی ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:بیمار معذور اور خواتین وغیرہ کے لئے دسویں ذی الحجہ کی رمی نصف شب سے کرنے کی اجازت نہیں؛ کیوںکہ دسویں ذی الحجہ کی رمی کا وقت صبح صادق سے شروع ہوتا ہے، اور گیارہ کی صبح صادق تک باقی رہتا ہے، یہ وقت پہلے ہی سے وسیع ہے، اس میں مزید وسعت دینے کی ضرورت نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ معذور کمزور اور خواتین کی بیماری اور کمزوری کا لحاظ رکھتے ہوئے صبح صادق کے بعد طلوع آفتاب سے پہلے (جس وقت بھیڑ کم ہو جاتی ہے) ان کو رمی کرنے کی گنجائش دی جا سکتی ہے۔ عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما مفصلا قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم للعباس لیلۃ المزدلفۃ: إذہب بضعفائنا ونسائنا فلیصلوا الصبح بمنیٰ، ولیرموا جمرۃ العقبۃ قبل أن تصبحہم دفعۃ الناس، قال الراوي: فکان عطاء یفعلہ بعد ما کبر وضعف۔ (فتح الباري ۳؍۴۲۱، إعلاء السنن ۱۰؍۱۵۸ دار الکتب العلمیۃ بیروت) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یأمر نساء ثقلۃ صبیحۃ جمع، أن یفیضوا مع أول الفجر بسواد، وأن لا یرموا الجمرۃ إلا مصبحین۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي / باب الوقت المختار لرمي جمرۃ العقبۃ ۷؍۲۹۰ رقم: ۹۶۵۴، عمدۃ القاري ۴؍۶۹۰، إعلاء السنن ۱۰؍۱۵۸ دار الکتب العلمیۃ بیروت) وخالف في ذٰلک الحنفیۃ: فقالوا: لا یرمي جمرۃ العقبۃ إلا بعد طلوع الشمس، فإن رمي قبل طلوع الشمس وبعد طلوع الفجر جاز، وإن رماہا قبل الفجر أعادہا، وبہذا قال أحمد وإسحاق، والجمہور … واحتج الجمہور بحدیث ابن عمر رضي اللّٰہ عنہا … أنہ کان یقدم ضعفۃ أہلہ فیقفون عند