خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
(۱) موصوفہ نے حج کے تکمیل کرنے کی وصیت نہیں کی، چونکہ وہ دینی مزاج کی حامل بھی نہیں تھیں، اور انہیں اس بات کا علم بھی نہیں تھا کہ ایسے وقت میں تکمیل حج کی وصیت کرنا چاہئے؟ (۲) موصوفہ پر اسی سال حج فرض نہیں ہوا؛ بلکہ حج فرض ہوئے کئی سال ہوچکے تھے، بقول ورثہ کے زندگی میں دو مواقع ایسے آئے کہ ان اوقات میں وہ کرنا چاہتی تو کرسکتی تھیں؛ لیکن ان سے اس سلسلہ میں تساہل ہوا۔ (۳) اس سلسلہ میں ایک وارث بخوشی اپنی رقم سے بدنہ کی قربانی موصوفہ کی طرف سے دینے کے لئے تیار ہے؛ لیکن باقی رشتہ دار انہیں منع کررہے ہیں، یہ کہاں تک درست ہے؟ جب کہ احکامات یہ ہیں: مسئلہ:- کوئی شخص وقوفِ عرفہ کے بعد طوافِ زیارت سے پہلے مرجائے اور حج پورا نہ کرنے کی وصیت کرجائے کہ میرا حج پورا پورا کرادینا، تو بدنہ یعنی ایک گائے یا اونٹ ذبح کرنا واجب ہوگا۔ (بحوالہ: معلم الحجاج ۱۷۹) اور اسی صفحہ ۱۷۹ کے آخر حاشیہ میں یہ تفصیل موجود ہے، جو شخص حج فرض ہونے کے بعد دوسرے تیسرے سال تاخیر کرکے حج کے لئے آیا ہو، اس کو قبل یا بعد وقوف کے مرنے کے وقت وصیت اتمام واجب ہوگا۔ (معلم الحجاج ۱۷۹ حاشیہ) لیکن وصیت نہ کرنے کی وجہ نمبر ؍۱ میں لکھ دی گئی۔ مسئلہ:- اگر وارث بغیر وصیت کے جزاء ادا کردے تو ادا ہوجاتی ہے۔ (بحوالہ: معلم الحجاج ۲۲۶) جواب سے جلد مطلع فرمائیں، تو مہربانی ہوگی۔ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسئولہ صورت میں موصوفہ پر حج کی تکمیل کے لئے بدنہ دینے کی وصیت کرنا ضروری تھا، اگر انہوں نے کسی وجہ سے اس کی وصیت نہیں کی، تو وارثین پر ان کے متروکہ مال میں سے بدنہ دینا لازم نہیں؛ لیکن اگر کوئی وارث بخوشی اپنی رقم سے ان کی طرف