خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
سے پہلے اگر چار چکر ہوگئے ہیں، تو نماز کے بعد بقیہ چکر پورے کرنے سے طواف مکمل ہوجائے گا، اور اگر کم چکر ہوئے ہیں، تو نئے سرے سے طواف کرنا پڑے گا، ہم نے مفتی شبیر احمد قاسمی صاحب مدرسہ شاہی مرادآباد کی کتاب ’’انوار مناسک‘‘ میں دیکھا کہ اگر ایک دو چکروں کے بعد بھی یہ صورت پیش آجائے، تو وضو کرکے یا نماز پڑھ کر بقیہ چکروں کو مکمل کیا جاسکتا ہے، اس سے طواف میں کسی قسم کی کمی خرابی واقع نہیں ہوگی۔ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: طواف میں چار چکروں سے پہلے وضو ٹوٹ جانے یا نماز میں مشغول ہونے کی وجہ سے ازسرنو طواف کرنے کا حکم ضروری نہیں ہے؛ بلکہ افضل اور مستحب ہے؛ لہٰذا اگر ازسرنو کرنے میں بھیڑ وغیرہ کی وجہ سے دشواری ہو تو وضو اور نماز کے بعد مابقیہ چکروں کو وہیں سے پورا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس سے طواف کے ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ (مستفاد: انوار مناسک ۳۸۰) ولو أقیمت الصلاۃ والرجل یطوف، أو یسعی یترک الطواف والسعي، ویصلي ثم یبني بعد الفراغ من الصلاۃ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۲۷) وإذا أقیمت الصلاۃ المکتوبۃ أو الجنازۃ خرج من طوافہ إلیہا، وکذا إذا کان في السعي، ثم إذا فرغ وعاد علی ما کان طوافہ لایستقبلہ۔ (فتح القدیر ۲؍۴۹۴ بیروت) ومن أضافہ شيء ینقض وضوء ہ وہو یطوف بالبیت أو یسعی بین الصفا والمروۃ، وتحتہ في الأوجز والثانیۃ یتوضأ ویبني، وبہا قال الشافعي وإسحٰق، وقال أحمد بن حنبل: فیمن طاف ثلاثۃ أشواطٍ أو أکثر یتوضأ، فإن شاء بنی وإن شاء استأنف۔ (أوجز المسالک ۳؍۵۰۳) ولو خرج منہ أو من السعي إلی جنازۃ أو مکتوبۃ، أو تجدید وضوء، ثم عاد بنی، قال الشامي: أي علی ما کان طوافہ، ولا یلزمہ الاستقبال۔ (درمختار مع الشامي ۳؍۵۱۰-۵۱۱ زکریا)