خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر ایامِ نحر ۱۰-۱۲؍ذی الحجہ میں طوافِ وداع میں طوافِ زیارت کی نیت کی، تو طوافِ زیارت ادا ہوجائے گا؛ لیکن طوافِ وداع الگ سے کرنا ہوگا۔ اور اگر ایامِ نحر گذرنے کے بعد طوافِ زیارت کیا، تو تاخیر کی وجہ سے دم واجب ہوگا اور طوافِ وداع بہرحال الگ سے کرنا ہوگا۔ عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أتی إلی البیت فصلی بمکۃ الظہر، یعني: یوم النحر۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، کتاب الحج / باب من زار یوم النحر ۸؍۱۱۰-۱۱۱ رقم: ۱۳۲۰۶ المجلس العلمي) عن وبرۃ قال: کان الأسود إذا رمی الجمرۃ یوم النحر زار البیت من یومہ، ثم رجع إلی منزلہ من یومہ، حتی ینفِر مع الناس إذا نفروا۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۸؍۱۱۲ رقم: ۱۳۲۰۷ المجلس العلمي) عن التمیمي عن أبي قلابۃ وجابر بن زید: أنہما زارا البیت یوم النحر۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۸؍۱۱۲ رقم: ۱۳۲۱۳ المجلس العلمي) والحاصل: أن طواف الزیارۃ مؤقت بأیام النحر وتأخیرہ عنہا یوجب الدم عندہ۔ (البحر العمیق ۲؍۱۱۲۹) وأما الواجب فہو فعلہ في یوم من الأیام الثلاثۃ عند أبي حنیفۃ حتی لو أخرہ عنہا مع الإمکان لزمہ دم، وقد ورد في الحدیث أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم طاف بعد صلاۃ الظہر یوم النحر للرکن۔ (البحر العمیق ۲؍۳۴۷ کراچی) ووقتہ أیام النحر لأن اللّٰہ تعالیٰ عطف الطواف علی الذبح، قال: فکلوا منہا، قال: ولیتطوفوا فکان وقتہا واحداً … ویکرہ تاخیرہ عن